Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 115
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں حَرَّمَ : حرام کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةَ : مردار وَالدَّمَ : اور خون وَلَحْمَ : اور گوشت الْخِنْزِيْرِ : خنزیر وَمَآ : اور جس اُهِلَّ : پکارا جائے لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے علاوہ بِهٖ : اس پر فَمَنِ : پس جو اضْطُرَّ : لاچار ہوا غَيْرَ بَاغٍ : نہ سرکشی کرنیوالا وَّ : اور لَا عَادٍ : نہ حد سے بڑھنے والا فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
سوائے اس کے نہیں کہ اس نے حرام فرمایا تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، اور اس (نذرو نیاز) کو جس پر نام لیا گیا ہو اللہ کے سوا کسی اور کا، پھر جو کوئی مجبور ہوگیا (بھوک وغیرہ کی وجہ سے، اور اس نے ان چیزوں میں سے کچھ کھالیا) بشرطیکہ نہ تو وہ طالب لذت ہو اور نہ ہی حد ضرورت سے بڑھنے والا، (اس پر کوئی گناہ نہیں کہ) بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے،
248۔ تحریمات الہیہ کا ذکر وبیان :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں پر صرف یہ چیزیں حرام فرمائی ہیں جن کو (انما) کے کلمہ حصر سے بیان فرمایا گیا ہے۔ سو وہی حرام ہیں نہ کہ ” بحرہ “ ،” سائبہ “ وغیرہ وہ چیزیں جن کو تم لوگوں نے از خود حرام قرار دے رکھا ہے۔ سو یہ حصر اضافی ہے نہ کہ حقیقی۔ کہ محرمات تو ان چیزوں کے علاوہ اور بھی بہت ہیں۔ سو اس میں ان محرمات کا ذکر فرمایا گیا ہے جن کا تعلق کھانے پینے کی ان اشیاء اور مویشی جانوروں سے ہے جن کو ان لوگوں نے از خود حرام ٹھہرارکھا تھا۔ نہ کہ تمام اشیاء سے۔ سو تحریم وتحلیل اللہ تعالیٰ ہی کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ اس نے اپنے بندوں کیلئے ” طیبات “ یعنی پاکیزہ چیزوں کو حلال ٹھہرایا اور ” خبائث “ یعنی خبیث اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے دیا۔ اور وہی جانتا ہے کہ اس کے بندوں کے لئے طیب اور پاکیزہ چیزیں کیا ہیں اور ناپاک اور خبیث کیا۔ اس کے سوا یہ شان اور کسی میں بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے تحلیل وتحریم اسی کا حق ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 249۔ غیر اللہ کی طرف منسوب چیز کی حرمت کا ذکر وبیان :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور ہر چیز جس پر نام لیا گیا ہو اللہ کے سوا کسی اور کا اس کے تقرب کی نیت سے۔ خواہ اس کے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو یا کسی اور کا۔ کیونکہ وہ چیز غیر اللہ کے لئے نامزد کردینے کے باعث حرام قرار پاگئی۔ پس اہل بدعت جو اس کے ترجمہ میں کہتے ہیں کہ جس کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور اس طرح وہ اپنی شرکیات کیلئے جو چور دروازہ نکالنا چاہتے ہیں وہ سب باطل و مردود ہے۔ کہ یہاں نص قرآنی میں (اھل) کا لفظ ارشاد فرمایا گیا ہے جس کا معنی باتفاق اہل لغت رفع الصوت ہے۔ یعنی آواز اٹھانا اور نامزد کرنا نہ کہ ذبح کرنا۔ اور جن حضرات مفسرین نے اس موقع پر ذبح کا ذکر فرمایا ہے تو وہ محض ایک کثیر الوقوع صورت کے ذکر کے طور پر کیا ہے نہ کہ حصر کیلئے۔ نیز اس لیے کہ اس کی حرمت اتفاقی اور اجماعی ہے۔ ورنہ (اھل) کا اصل معنی ذبح ہے ہی نہیں۔ بہرکیف جس چیز کو غیر اللہ کے تقرب کیلئے مخصوص کیا گیا اور اس پر اسی کا نام لیا گیا ہو وہ بھی حرام ہے۔ اور اس کی شدت حرمت کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ یہاں پر اس کا ذکرخنزیر کے گوشت پر معطوف کرکے فرمایا گیا ہے۔ مفسراحمد مصطفیٰ مراغی مرحوم اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں اس موقعہ پر لکھتے ہیں کہ غیر اللہ سے مراد عام ہے خواہ کوئی جن ہو یا انسان۔ جیسے کوئی نبی یا ولی۔ زندہ ہو یا مردہ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جس کسی کی طرف بھی اس کو منسوب کیا گیا ہو وہ حرام ہے۔ کیونکہ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے۔” ملعون من ذبح لغیر اللہ “ یعنی جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کرکے کسی چیز کو ذبح کیا وہ ملعون یعنی لعنتی ہے۔ خواہ ایسے شخص نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیاہو۔ سو جس سے سیدبدوی یا ابراہیم دسوقی یا سیدہ زینب وغیرہ کسی بھی نام سے کوئی جانور ذبح کیا وہ حرام ہے۔ اس کا کھانا جائز نہیں۔ (تفسیر المراغی جلد 14 صفحہ 153 طبع بیروت لبنان) 250۔ مضطر کیلئے اکل حرام کی مشروط اجازت :۔ سو (غیرباغ ولا عاد) کی ان دوقیدوں سے واضح فرما دیا گیا کہ نہ تو حرام کو لذت وشوق کی بناء پر کھائے اور نہ حدضرورت سے زیادہ۔ بلکہ اس قدر کھائے جس سے اس کی جان بچ سکتی ہو اور بس۔ مثلا ایک لقمے سے جان بچ سکتی ہو تو دوسرا نہ کھائے وغیرہ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو مضطر ولا چار شخص بقدر ضرورت اور بمقدار سد رمق کھا سکتا ہے اور بس اور اس سے زیادہ اس کے لئے جائز نہیں۔
Top