Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
بیشک ابراہیم اپنی ذات میں ایک پوری امت تھا، اللہ کا فرمانبردار، ویکسو، اور اس کا کوئی لگاؤ نہیں تھا مشرکوں سے،4
258۔ ابراہیم ایک امت تھے :۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور کلمہ تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک وہ اپنی ذات میں پوری ایک امت تھا۔ یعنی ایک امت کی مجموعی صفات تنہا ان کی ذات میں موجود تھیں۔ اور تن تنہا انہوں نے وہ کام کیا جو پوری ایک امت اور جماعت کرتی ہے۔ نیز ” امۃ “ امام کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جس کے معنی ہیں پیشوا ومقتداء۔ یعنی ابراہیم ایک عظیم الشان پیشوا ومقتداء تھے۔ کیونکہ ان کی امامت و پیشوائی پر سب متفق ہیں۔ مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی پر، یہود و نصاری بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مقتداء و پیشوا مانتے ہیں۔ اور مشرکین عرب بھی فخریہ دعوی کرتے تھے کہ ہم ابراہیم کی اولاد، ان کی نسل، انکے وارث اور ان ہی کے پیروکار ہیں۔ سو ایسی دوسری کوئی ہستی نہیں ہوئی جس کو اس طرح یہ تمام ہی بڑے مذہب وادیان اوراقوام وملل والے اپنا پیشوا ومقتداء مانتے ہوں سوائے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے۔ اور آپ کی امامت و پیشوائی ایسی عظیم الشان اور بےمثال کیوں نہ ہوتی جب کہ حضرت حق جل مجدہ نے آپ کو بطور خاص چنا اور اس منصب جلیل کیلئے منتخب فرمایا تھا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ جس کے قبضہ قدرت میں سب کے دلوں کی دنیا ہے اور جس نے اس کا اعلان واظہار اپنے کلام حق ترجمان میں صاف وصریح طور پر واضح وقطعی انداز میں اس طرح فرمایا ہے۔ (انی جاعلک للناس امام) (البقرۃ : 124) یعنی ” میں آپ کو اے ابراہیم (علیہ السلام) سب لوگوں کا امام یعنی پیشوا ومقتدا بنانے والا ہوں “ لہذا آپ کو امام اور پیشوا ماننے والوں پر لازم آتا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صحیح طور پر اور صدق دل سے اتباع اور پیروی کریں۔ تاکہ اس طرح یہ ابراہیمی ہونے کے اپنے دعوی میں بھی سچے قرار پائیں اور خود انہی کا بھلا بھی ہو۔ ورنہ محض زبانی کلامی دعوؤں کے کچھ نہیں بنے گا ایسے دعوؤں سے انسان خود اپنے آپ ہی کو دھوکہ دیتا ہے، مگر اس کو اس کا شعور ہی نہیں ہوتا۔ والعیاذ باللہ۔ 259۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے فرمانبردار اور یکسو تھے :۔ ہرباطل سے کٹ کر اور ہر طرف سے ہٹ کر خالص حق کے لئے ہو کر رہ جانے والے۔ اور وہ باطل سے کٹ کر اور اس کے طور طریقوں سے ہٹ کر صرف دین حق یعنی اسلام کے متبع اور پیرو بن گئے تھے۔ نہ اس کو کبھی چھوڑا نہ کبھی اس کی راہ سے ذرہ برابر ہٹے۔ بلکہ حق و ہدایت کی اسی راہ پر ہمیشہ مستقیم اور ثابت قدم رہے اور اس استقامت کیلئے انہوں نے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا، بتوں کو توڑا۔ کفار سے لڑے اور ریئس الموحد قرارپائے۔ اپنے مشرک اور بت پرست باپ کو چھوڑا اور ایسی بےمثال انفرادیت اور عزت و عظمت سے سرفراز ہوئے کہ ایسے باپ کے گھر میں جنم لینے کے باوجود جو کہ نہ صرف بت پرست تھا بلکہ بت گر اور بت فروش بھی تھا، اس کے گھر میں جنم لینے اور ظلمت کفر و شرک کے اس مہیب ماحول کے اندر آنکھ کھولنے کے باوجود آپ نے نہ صرف یہ کفر و شرک کے کسی داغ دھبے سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا بلکہ کفرو شرک کے ان مہیب اندھیروں میں نور توحید کو پھیلانے اور مشرکین کے ساختہ پرداختہ بتوں اور ان کے من گھڑت خداؤوں کو پاش پاش کرنے میں وہ کارنامے انجام دیے جو قیامت تک دنیا کے لیے نشان راہ کے طور پر چمکتے دمکتے رہیں گے۔ سو یہ انفرادی اور عدیم النظیر شان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوا اور کسی بھی ہستی کی پوری تاریخ انسانیت میں نہ ہوئی نہ قیامت تک کسی کیلئے ہونا ممکن ہے کہ انہوں راہ حق میں بےمثال قربانیاں دی تھیں۔ فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی نبینا الی یوم الدین ورزقنا اتباعہم والاقتداء بہم۔ 260۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں سے کوئی لگاؤنہیں تھا :۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا کہ ان کا مشرکوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ پس مشرکین عرب کا آپ کو پیشوا و مقتداء بنانے کا دعوی جھوٹا اور باطل ہے۔ اور یہی حال یہود و نصاری کا ہے کہ انہوں نے بھی طرح طرح سے اپنے آپ کو اہل کتاب ہونے کے باوجود شرک کی طرح طرح کی آلودگیوں سے آلودہ اور ملوث کردیا تھا۔ اور کر رکھا ہے۔ جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہر طرح کے شرک اور اس کے ہر شائبہ سے پاک اور بری تھے۔ اور آپ کا مشرکوں سے کسی طرح کا کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام۔ یہود و نصاری اور مشرکین کا آپ کی اتباع کا دم بھرنا بالکل باطل و مردود، اور بےبنیاد ہے۔ آپ کے سچے پیرو کار حضرت امام الانبیاء علیہ الصلوہ والسلام اور آپ کی امت ہے جو کہ ملت ابراہمی پر قائم ہے۔ والحمد اللہ جل جلالہ۔
Top