Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 123
ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَوْحَيْنَآ : وحی بھیجی ہم نے اِلَيْكَ : تمہاری طرف اَنِ : کہ اتَّبِعْ : پیروی کرو تم مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : یک رخ وَمَا كَانَ : اور نہ تھے وہ مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
(اور) پھر ہم نے آپ کی طرف بھی یہ وحی بھیجی (اے پیغمبر ! ) کہ آپ بھی پیروی کریں ابراہیم کی ملت کی، جو کہ (ہر باطل سے) یکسو (اور بیزار) تھا، اور اس کو کوئی لگاؤ نہیں تھا مشرکوں سے،
264۔ حضرت امام الانبیاء کو بھی ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم وارشاد :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور آپ بھی (اے پیغمبر ! ) پیروی کرو ملت ابراہیم کی جو کہ یکسو تھا (ہرباطل سے) “ یعنی آپ کی عظمت شان اور جلالت قدر کے باوجود آپ ﷺ کو بھی ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا جاتا ہے۔ سو اس طرح یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عظمت شان کا ایک اور بڑا ثبوت ہے کہ حضرت امام الانبیاء (علیہ الصلوۃ والسلام) کو بھی آنجناب کی ملت کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے لیکن یاد رہے کہ یہاں اتباع سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا لایا ہوا دین اصول و عقائد میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کے ساتھ متفق ہے کہ بنیادی اصول دونوں کے ایک ہی ہیں۔ ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت ﷺ پورے دین میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیروکار تھے، کیونکہ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتی نہیں تھے۔ بلکہ مستقل دین و شریعت لے کر تشریف لائے تھے ﷺ اور آپ سب انبیاء ورسل سے افضل اور ان کے امام و پیشوا تھے۔ سو اس ارشاد سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہود و نصاری اور مشرکین عرب اگرچہ ملت ابراہیمی کی پیروی کے مدعی تو ہیں لیکن اس دعوی وادعاء میں یہ لوگ قطعی طور پر جھوٹے ہیں۔ کہ یہ سب لوگ طرح طرح شرک میں ملوث اور اس کی غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ ہاں آپ لوگ ملت ابراہیمی کے اصل پیروکار ہیں کہ ہم نے آپ کی طرف اے پیغمبر اس کی وحی کی ہے والحمد للہ جل جلالہ۔
Top