Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 127
وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ
وَاصْبِرْ : اور صبر کرو وَمَا : اور نہیں صَبْرُكَ : تمہارا صبر اِلَّا : مگر بِاللّٰهِ : اللہ کی مدد سے وَلَا تَحْزَنْ : اور غم نہ کھاؤ عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا تَكُ : اور نہ ہو فِيْ : میں ضَيْقٍ : تنگی مِّمَّا : اس سے جو يَمْكُرُوْنَ : وہ فریب کرتے ہیں
اور آپ (اے پیغمبر ! ) صبر ہی سے کام لیتے رہیں اور آپ کا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے، اور کسی طرح کی تنگی میں نہیں پڑنا ان چالبازوں کی بناء پر، جن سے یہ لوگ کام لے رہے ہیں،
271۔ صبر کی تلقین اور حصول صبر کے ذریعے کی تعلیم :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور آپ تنگی میں نہ پڑیں ان چالبازیوں کی بناء پر جو یہ لوگ کررہے ہیں “ کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی چالبازیاں اور شرانگیزیاں آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گی کہ آپ کا محافظ خود اللہ ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور جو آپ کو کبھی ساحرکہتے ہیں اور کبھی شاعر۔ کبھی کاہن اور کبھی مجنون وغیرہ۔ تو آپ اس کی پرواہ نہ کریں اور ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے کریں۔ وہ ان سے خود ہی نمٹ لے گا اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق نمٹے گا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ (مراغی اور معارف وغیرہ) اور حصول صبر کے ذریعے کی تعلیم کے لئے ارشاد فرمایا گیا (وما صبرک الا باللہ) یعنی ” صبر حاصل نہیں ہوسکتا مگر اللہ کے ذریعے “ یعنی اس کے تعلق سے۔ پس حصول صبر کے لئے انسان پر لازم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرے۔ اور اس تعلق کا ذریعہ ذکر خداوندی ہے۔ اور ذکر خداوندی کی سب سے کامل شکل اور اعلیٰ ذریعہ و وسیلہ نماز ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا۔ (واقم الصلوۃ لذکری) (طہ : 24) نیز اس کا ذریعہ ہے اشتغال بالقرآن۔ کیونکہ قرآن حکیم ہی اصل ذکر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ (انا نحن نزلنا الذکروانا لہ لحافظون) ۔ (الحجر : 9) یعنی اس ذکر کو ہم نے اتارا ہے اور ہم خود ہی اس کے محافظ ہیں جو اس میں مشغول رہیگا وہ اللہ تعالیٰ کے حفظ وامان سے سرشار و سرفراز ہوگا۔ اللہ نصیب فرمائے اور علی وجہ الکمال نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔
Top