Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 23
لَا جَرَمَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ
لَاجَرَمَ : یقینی بات اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو يُسِرُّوْنَ : وہ چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْمُسْتَكْبِرِيْنَ : تکبر کرنے والے
یقیناً اللہ ان کے وہ سب کرتوت بھی جانتا ہے جو یہ لوگ چھپا کر کرتے ہیں، اور وہ سب بھی جو یہ اعلانیہ کرتے ہیں، بیشک وہ پسند نہیں فرماتا اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھنے والوں کو،2
40۔ استکبار یعنی اپنی بڑائی کا زعم اور گھمنڈ باعث ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور ان کی تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ متکبرین کو پسند نہیں فرماتا یعنی ان کو جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے یہاں مبغوض ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ چناچہ صاف وصریح طور پر اور ادوات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ پسند نہیں کرتا اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھنے والوں کو کہ برائی فقط اسی ذات وحدہ لاشریک کو سزا وار ہے جو سب کی خالق ومالک ذات ہے۔ باقی تو سب عاجز مخلوق ہیں۔ وھو الکبیر المتعال، اکبر من کل کبیر جل جلالہ وعز برھانہ۔ سو استکبار یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھنا خرابی و فساد کی جڑ بنیاد ہے کیونکہ اس کی بناء پر انسان قبول حق و ہدایت کی سعادت سے اور اس کے نتیجے میں حق تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے محروم ہوجاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس ارشاد سے ان لوگوں کے کفر وانکار کے اصل سبب اور باطنی محرک کی نشاندہی فرما دی گئی کہ وہ ہے ان استکبار، یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ۔ اور ان کے دلوں میں بیٹھے استکبار کے اسی خناس نے ان کی راہ کھوٹی کردی۔ اور اسی نے ان کو قبول حق و ہدایت سے محروم کر رکھا ہے۔ اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ حق کو حق جانتے ہوئے بھی جھٹلا رہے ہیں اور باطل سمجھتے ہوئے بھی انہوں نے اس کو اپنے سینوں سے لگا رکھا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہری کفر وانکار اور اس کے اصل سبب اور باطنی محرک کو ایک برابر جانتا ہے۔ سو ایسے مغروروں اور متکبروں کو وہ پسند نہیں فرماتا بلکہ یہ اس کے دشمن اور مبغوض ہیں۔
Top