Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 24
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَۙ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے مَّاذَآ : کیا اَنْزَلَ : نازل کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا اتارا تمہارے رب نے ؟ تو یہ (پوری ڈھٹائی سے) کہتے ہیں کہ اجی ! (بس قصے) کہانیاں پہلے لوگوں کی،
41۔ مستکبرین کے استکبار کے ایک نمونہ اور مظہر کا ذکر وبیان : سو اس سے مستکبرین کے استکبار کا ایک نمونہ سامنے آتا ہے چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا اتارا تمہارے رب نے ؟ یعنی اس قرآن پاک کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس کو محمد ﷺ رب کی طرف سے اتارا ہوا بتاتے ہیں ؟ تو اس کے جواب میں یہ لوگ یوں کہتے ہیں یعنی قرآن مجید جو کہ اسلام کا معجزہ بلکہ معجزوں کا معجزہ ہے اور حضرت محمد ﷺ کی صداقت و حقانیت کا زندہ وجاوید ثبوت ہے اس کے بارے میں یہ لوگ اندھے اور بہرے بن کر اس طرح کہتے ہیں۔ قرآن حکیم کی دعوت حق اور اس کے کلام معجز نظام نے جب لوگوں کو ہلا کر اور ان کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا توعوام الناس نے جا جا کر اپنے لیڈروں اور سرغنوں سے اس بارے میں پوچھنا اور دریافت کرنا شروع کردیا کہ اس کے بارے میں آپ لوگوں کی رائے کیا ہے ؟ اور اس کی دعوت کے جواب میں ہمیں کیا کرنا چاہئے اور اس چیز کو ان لوگوں نے اپنی لیڈری کے لئے خطرہ کا الارم سمجھا۔ تو انہوں نے اپنے ان چیلوں اور عوام کالانعام کو اپنے قابو میں رکھنے اور ان کو اطمینان دلانے کے لیے قرآن حکیم کے بارے میں اس طرح کافرانہ ریمارکس دے۔ تاکہ وہ کہیں ایمان لاکر ان کے چنگل سے نہ نکل جائیں، باطل پرستوں کا حال کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے، آمین۔ 42۔ کفار و منکرین کے ریمارکس قرآن حکیم کے بارے میں : کہ یہ محض پہلی قوموں اور ماضی کے لوگوں کے قصے اور ان کی کہانیاں ہیں۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا " اور یہ قصے کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی " جن کو یہ صاحب یعنی پیغمبر (علیہ الصلوۃ والسلام) دوسروں سے لکھ لکھا کر پیش کردیتے ہیں اور بس۔ ورنہ اللہ کی طرف سے اترنے اتارنے کی کوئی بات نہیں جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا (وقالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرہ واصیلا) ۔ (الفرقان : 5) مطلب یہ کہ عاد اور ثمود وغیرہ قدیم قوموں کی قصے کہانی ہیں اور بس اس لیے ان سے متاثر اور مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم لوگ ٹھیک ہیں، وغیرہ وغیرہ سو اس طرح ایسے لوگ اپنی سیاہ بختی اور محرومی میں اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ مگر ان کو اپنی اس محرومی کا کوئی احساس وشعور ہی نہیں جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ۔ جل وعلا۔
Top