Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 2
یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے بِالرُّوْحِ : وحی کے ساتھ مِنْ : سے اَمْرِهٖ : اپنے حکم عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖٓ : اپنے بندے اَنْ : کہ اَنْذِرُوْٓا : تم ڈراؤ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ : سوائے اَنَا : میرے فَاتَّقُوْنِ : پس مجھ سے ڈرو
وہ اتارتا ہے فرشتوں کو اپنے حکم سے اس (عظیم الشان) روح کے ساتھ، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (اس بنیادی ہدایت کے ساتھ) کہ تم خبردار کردو (میرے بندوں کو) کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے میرے، پس تم سب مجھ ہی سے ڈرو،4
3۔ روح اور قلب کی زندگی وحی الہی سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہی اتارتا ہے فرشتوں کو روح کے ساتھ اپنے حکم سے اور روح سے یہاں پر مراد وحی الہی ہے اور اس کو روح سے اس لیے تعبیر فرمایا گیا کہ جس طرح جسم کی زندگی روح سے ہے اسی طرح روح اور قلب کی زندگی وحی الہی سے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کی جسمانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے طرح طرح کی خوراکوں کا سامان و انتظام فرمایا، اسی طرح اس نے اس کے قلب وروح کی زندگی کے لئے وحی کا انتظام بھی فرمایا، کہ اسی پر اس کی معنوی اور روحانی زندگی موقوف ہے، اور اسی بات کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس طرح ارشاد فرمایا کہ انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا بلکہ وہ وحی کے اس کلمہ سے جیتا ہے جو اس کو خدا وندقدوس کی طرف سے عطاء کیا جاتا ہے۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ وہ اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے اپنے فرشتوں کو اتارتا ہے۔ اور جس طرح اس نے اپنے بندوں کی جسمانی اور مادی ضروریات کی تکمیل کا سامان کیا اسی طرح اس نے ان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان بھی فرمایا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور ایسے فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم وارشاد سے اس کے ان خاص اور چیدہ بندوں ہی پر اترتے ہیں جن کو وہ نبوت و رسالت اور اپنی پیغام رسانی کے لئے چنتا اور منتخب فرماتا ہے کہ وہی جانتا ہے کہ کون اس کا اہل ہے۔ (اللہ علم حیث یجعل رسالتہ) پس اہل کفر وباطل کا یہ کہنا کہ وہ فرشتے براہ راست ہمارے پاس کیوں نہیں آتے ان کی اپنی حماقت اور مت ماری کی دلیل ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ کیونکہ اللہ کے فرشتے نہ عام لوگوں کے اتر سکتے ہیں اور نہ ہی عام لوگ فرشتوں کو دیکھنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ان کا نزول حضرات انبیاء ورسل ہی پر ہوتا ہے۔ علہیم الصلوۃ والسلام۔ 4۔ نبوت و رسالت محض انتخاب خداوندی : چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اپنے حکم سے روح کے ساتھ اتارتا ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ نبوت و رسالت محض انتخاب خداوندی ہوتا ہے، اللہ جس کو چاہتا ہے اس کے لئے منتخب فرماتا ہے، کیوں کہ وہی جانتا ہے کہ کون اس کا اہل ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ، سو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس روح یعنی نور وحی کے ساتھ اترتے ہیں، جس سے دلوں کو زندگی نصیب ہوتی ہے۔ جیسا کہ روح سے جسموں کو زندگی ملتی ہے۔ (ابن کثیر، فتح القدیر، صفوۃ التفاسیر، معارف وغیرہ) پس جو لوگ ہدایت ووحی کے نور سے محروم ہیں وہ حقیقت میں مردہ ہیں اگرچہ بظاہر زندہ اور چلتے پھرتے ہوں، اور دنیاوی اعتبار سے بڑے تیز طرار اور ترقی یافتہ بھی ہوں۔ لیکن حقیقت میں وہ مردہ اور بےروح ہیں۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ والحمد لہ جل وعلا الذی شرفنا بنور الایمان۔ اور نور وحی اب قیامت تک صرف قرآن حکیم کے مصدر فیض ہی سے مل سکتا ہے۔ پس جو لوگ اس کتاب ہدایت اور اس پر ایمان کی نعمت سے محروم ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ وہ سراسر مردہ اور اموات غیر احیاء ہیں۔ اور طرح طرح کے گھمنڈ اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مبتلا ہیں اگرچہ وہ اپنے آپ کو بہت کچھ ہی کیوں نہ سمجھتے ہوں اور ایسے ہی بلند وبانگ دعوے کیوں نہ کرتے ہوں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 5۔ عقیدہ توحید کی عظمت شان : سو اس سے عقیدہ توحید کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے، کیوں کہ اس میں ارشاد فرمایا گیا کہ وحی خداوندی کا مرکزی مضمون اور اس کی اولین دعوت یہی ہے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ سو نور وحی کی اس مقدس روح کا خلاصہ اور اس کی اساس و بنیاد عقیدہ توحید ہے۔ پس توحید والے ہی دراصل زندہ ہیں اور شرک والے مردہ۔ والعیاذ باللہ العظیم من الشرک وشوآئبہ فی کل لحظۃ من الحظات الحیاۃ۔ سو معبود برحق صرف اللہ ہے اور عبادت کی ہر قسم اور ہر شکل اسی وحدہ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ خواہ وہ کوئی بدنی عبادت ہو یا مالی۔ اور کسی بھی طرح کی عبادت کو اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کے لئے بجالانا شرک ہوگا جو ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ کی طرف سے ہر نبی و رسول کو اسی بات کی ہدایت فرمائی گئی کہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ و خبردار کرو کہ میرے سوا کوئی بھی معبود نہیں۔ پس تم سب لوگ میری ہی عبادت و بندگی کرو اور خاص مجھ ہی سے ڈرو اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک مت ٹھہراؤ۔ سو اللہ تعالیٰ ہر لحاظ واعتبار سے یکتا اور وحدہ لاشریک ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top