Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 33
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّكَ١ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
هَلْ : کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے ہیں اِلَّآ : مگر (صرف) اَنْ : یہ کہ تَاْتِيَهُمُ : ان کے پاس آئیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ يَاْتِيَ : یا آئے اَمْرُ : حکم رَبِّكَ : تیرا رب كَذٰلِكَ : ایسا ہی فَعَلَ : کیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے وَ : اور مَا ظَلَمَهُمُ : نہیں ظلم کیا ان پر اللّٰهُ : اللہ وَلٰكِنْ : اور بلکہ كَانُوْٓا : وہ تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے
تو کیا یہ لوگ (جو حق واضح ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے) اسی انتظار میں ہیں کہ آپہنچیں ان کے پاس فرشتے (موت کے) یا آجائے تمہارے رب کا ؟ (عذاب مقدر، یا قیامت کی صورت میں) اسی طرح (کی ضد بازی اور ہٹ دھرمی کا معاملہ) وہ لوگ کرچکے ہیں جو گزر چکے ہیں، ان سے پہلے، اور (انہوں نے اپنے کئے کا مزہ بھی پالیا، تو کہیں) اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے تھے،1
66۔ آخر کا ہے کی انتظار میں ہیں یہ لوگ ؟ : جو حق کے پوری طرح واضح ہوجانے کے باوجود اس پر ایمان نہیں لاتے ؟ کیا یہ لوگ اب اسی کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس آجائیں فرشتے یا پہنچ جائے اللہ کا حکم ؟ یعنی بالکل آخری وقت آجائے۔ کیونکہ اب اس کے سوا کوئی اور کسر باقی نہیں رہی۔ اور اس وقت تو یہ لوگ آپ سے آپ مانیں گے اور چیخ چیخ کر، چلا چلا کر اور خوب خوب مانیں گے۔ اور ایمان لے آئیں گے۔ مگر اس کا فائدہ کیا ؟ کہ اس وقت وہ ایمان قابل قبول نہیں ہوگا۔ بہرکیف اب ان کے سامنے حق کے واضح ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی ؟ اس کے باوجود اگر یہ نہیں مانتے تو اس کے معنی یہی ہیں کہ اب یہ اسی بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے آکر ان کی جان قبض کرلیں۔ یا وہ عذاب آجائے جو ان کی جڑ نکال دے۔ یا قیامت کی وہ آخری اور ہولناک گھڑی ہی آدھمکے جس کے بعد سنبھلنے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ سو اس ارشاد میں ان لوگوں کو ایمان لانے کے لیے ترغیب وتحریض ہے تاکہ ایسے لوگ اپنے ہولناک انجام سے بچ جائیں۔ (المراغی، المحاسن اور المعارف وغیرہ) اللہ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی گامزن رکھے اور زندگی کا ہر لمحہ اور لحظہ راہ حق میں صرف کرنے کی توفیق بخشے، آمین۔ 67۔ حق سے منہ موڑنا خود اپنی جان پر ظلم کرنا ہے۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نور حق و ہدایت سے منہ موڑنا خود اپنی جان پر ظلم کرنا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ سو یہ لوگ اپنے کفر وباطل پر اڑے رہے تھے۔ جس کا بھگتان انہیں بھگتنا پڑا سو وہی انجام آج کے ان منکروں کا بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ کا قانون سب کے لیے یکساں اور بےلاگ ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو نور حق و ہدایت سے محرومی دارین کی سعادت و سرخروئی سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس میں دور حاضر کے منکرین کے لئے تاریخ کا درس عبرت ہے کہ اسی طرح کے لچھن جن گزشتہ قوموں کے تھے وہ بالآ اپنے انجام کو پہنچ کررہیں۔ سو اس آئینے میں تم لوگ بھی اپنا مستقبل دیکھ لو اور اپنی روش کے اصلاح کرو۔ ورنہ اسی انجام کے لئے تیار ہوجاؤجس سے ماضی کی وہ بد اطوار قومیں دو چار ہوچکی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون بےلاگ اور سب کے لیے یکساں اور ایک برابر ہے، اس کی گرفت وپکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے آمین ثم آمین۔
Top