Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 36
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُ١ؕ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ بَعَثْنَا : تحقیق ہم نے بھیجا فِيْ : میں كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت رَّسُوْلًا : کوئی رسول اَنِ : کہ اعْبُدُوا : عبادت کرو تم اللّٰهَ : اللہ وَاجْتَنِبُوا : اور بچو الطَّاغُوْتَ : طاغوت (سرکش) فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے بعض مَّنْ هَدَى : جسے ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : بعض حَقَّتْ : ثابت ہوگئی عَلَيْهِ : اس پر الضَّلٰلَةُ : گمراہی فَسِيْرُوْا : پس چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
اور بلاشبہ ہم نے ہر امت میں (اس بات کی تعلیم کے لئے کوئی نہ کوئی) پیغام رساں ضرور بھیجا ہے، کہ تم لوگ بندگی کرو اللہ کی اور بچتے رہو طاغوت سے، پھر ان میں سے کسی کو اللہ نے نواز دیا (نورِ حق) ہدایت سے، اور کسی پر ٹھپہ لگ گیا گمراہی کا، سو تم لوگ چل پھر کر دیکھو (اللہ کی) زمین میں، کہ کیسا ہوا انجام (حق) جھٹلانے والوں کا،4
73۔ طاغوت سے اجتناب کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ بندگی کرو ایک اللہ کی اور بچتے رہوطاغوت سے۔ کہ طاغوت سے تعلق اور اس کی بندگی سراسر ہلاکت و تباہی ہے۔ تو پھر مشرکین کا یہ کہنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ اللہ ہمارے شرک سے راضی ہے ؟ اور " طاغوت "، " طغیان " سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ جس کے عموم میں ہر معبود من دون اللہ داخل ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو کہیں کا بھی ہو۔ (معالم، خازن، ابو السعود وغیرہ) لیکن جہاں بھی کسی نے شرک کیا اور غیر اللہ کی پوجا کے جرم کا ارتکاب کیا وہاں اس کے پیچھے شیطان ہی رہا۔ اور شیطان ہی کے اغواواضلال سے ایسے لوگوں کے کفر و شرک وغیرہ جیسے سنگین اور ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس لئے طاغوت کا اصل اور سب سے بڑا مصداق شیطان ہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ان لوگوں کا یہ کہنا کہ اللہ ہمارے کفر و شرک سے راضی ہے قطعی طور پر غلط اور خلاف واقع ہے،۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ دنیا والوں کو یہی تعلیم و تلقین فرمائی کہ تم لوگ ایک اللہ ہی کی بندگی کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ یہی تقاضا ہے عقل ونقل اور فطرت سلیمہ کا۔ اور اسی میں انسان کا بھلا ہے دنیا اور آخرت دونوں میں، وباللہ التوفیق۔ 74۔ طلب صادق، باعث سرفرازی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر ان میں سے کسی کو اللہ نے نور ہدایت سے نوازدیا۔ جو کہ اس کا اہل تھا اور اس کے باطن میں طلب صادق پائی جاتی تھی۔ اور وہ عناد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا نہیں تھا۔ کیونکہ جو عناد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دولت حق و ہدایت سے محروم ہوجاتے ہیں کہ ہدایت کی دولت جو کہ سب سے بڑی دولت ہے ملتی تو اس واہب مطلق کی طرف سے مفت اور بالکل مفت ہے لیکن اس کے لئے اولین تقاضا اور بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان کے اندر اس کے لئے طلب صادق پائی جاتی ہو۔ تو محرومی ہی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو صدق نیت اور طلب صادق نورحق و ہدایت سے سرفرازی کی اصل بنیاد اور اولین اساس ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایات اور اس کی نوازشوں کا مداروانحصار اسی پر ہے۔ پس ہمیشہ اس چیز کو ہی اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔ 75۔ عناد وہٹ دھرمی باعث محرومی۔ والعیاذ باللہ : چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور کسی پر ٹھپہ لگ گیا گمراہی کا۔ والعیاذ باللہ۔ اس کی اپنی بدنیتی اور سوء اختیار کی وجہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ کہ جب وہ ہدایت چاہنے کی بجائے اس کی مقابلے عناد اور ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے تو پھر اس کو اس دولت بےمثال سے کیونکر نوازا جاسکتا ہے ؟ کہ یہ ایسی چیز ہی نہیں کہ اس کو نہ چاہنے کے باوجود کسی پر یونہی مڈھ دیا جائے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (انلزمکموھا وانتم لھا کرھون) ۔ (ہود : 28) یعنی " کیا ہم اس کو تم پر چپکادیں گے جبکہ تم اس کو نہ چاہتے ہو ؟ " استفہام انکاری ہے۔ یعنی ایسے نہیں ہوسکتا۔ سو حضرات انبیائے کرام کی بعثت و تشریف آوری کے بعد لوگ دو قسموں میں منقسم ہوگئے۔ ایک وہ جو جنہوں نے صدق دل سے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور وہ حق و ہدایت سے سرفراز ہو کر دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مند ہوگئے۔ اور دوسرے وہ جنہوں نے ان کی دعوت کے جواب میں عناد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا اور اس کے نتیجے میں ان پر گمراہی کا ٹھپہ لگ گیا اور وہ دارین کے خسارے میں مبتلا ہوگئے اور یہ ہے سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ، جس جیسا دوسرا کوئی خسارہ ہوسکتا ہی نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔ 76۔ انکار و تکذیب حق کا آخری انجام ہولناک تباہی۔ والعیاذ باللہ : سو تم لوگ زمین میں چل کر پھر کردیکھو کہ کیسا ہوا انجام جھٹلانے والوں کا ؟ اور کس طرح وہ بدبخت اپنے کفر وانکار اور عناد وہٹ دھرمی کے نتیجے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ مٹا کر ختم ہوگئے۔ پس زمین کی سیر و سیاحت اور اس میں چلنا پھر اور آثار قدیمہ کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا محمود و مطلوب شئی ہے جبکہ اس سے مقصود عبرت پزیری اور سبق لینا ہو۔ ورنہ عبث و بیکار ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو عبرت انگیز انجام ہوا ان لوگوں کا جنہوں نے حق کی دعوت کو جھٹلایا اور حضرات انبیائے کرام کی تکذیب کی جیسے قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، اور قوم لوط وغیرہ وغیرہ۔ سو حق کی تکذیب اور حضرات انبیاء ورسل کی دعوت و تبلیغ کے جواب میں اعراض واستکبار سے کام لینے اور ان کی توہین و تکذیب کے ارتکاب کا آخری نتیجہ وانجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہوتا ہے۔ اور اس سلسلے میں ملنے والی ڈھیل اور مہلت سے کبھی کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ بہرحال ایک ڈھیل اور مہلت ہی ہے جس سے حق تعالیٰ محض اپنی شان کرم و عنایت سے اور تمام حجت اور ازالہ عذر کیلئے نوازتا ہے اور بس سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور اس ڈھیل اور مہلت نے بہرحال ختم ہو کر اور اپنے آخری نتیجہ وانجام کو پہنچ کر رہنا ہے۔ اس کے بعد بہرحال محرومی اور ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top