Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 37
اِنْ تَحْرِصْ عَلٰى هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ
اِنْ : اگر تَحْرِصْ : تم حرص کرو (للچاؤ) عَلٰي هُدٰىهُمْ : ان کی ہدایت کے لیے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ لَا يَهْدِيْ : ہدایت نہیں دیتا مَنْ : جسے يُّضِلُّ : وہ گمراہ کرتا ہے وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ : کوئی نّٰصِرِيْنَ : مددگار
اگر آپ (اے پیغمبر ! ) ان کی ہدایت کی طمع بھی کریں تو (اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہدایت تو اللہ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے اور) یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو (نورِ حق) ہدایت سے نہیں نوازتا جس کو وہ گمراہی (کی دلدل) میں ڈال دیتا ہے (اس کی ہٹ دھرمی کی بناء پر) ، اور ایسوں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا،
77۔ پیغمبر کے لئے تسکین وتسلیہ کا سامان : چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور پیغمبر کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر آپ ان کی ہدایت کی حرص اور طمع بھی کریں تو بھی انہوں نے ہدایت قبول نہیں کرنی کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جن کو وہ گمراہی میں ڈال دیتا ہے، پس اب یہ لوگ ہدایت لانے والے نہیں ہیں کہ یہ اپنے خبث باطن اور سوء اختیار کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے قانون ضلالت کی زد میں آچکے ہیں۔ اب یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ پس آپ کو ان کی وجہ سے پریشان ہونے اور غم کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پس آپ ان بدبختوں کی محرومی اور پیغام حق و ہدایت سے ان کے اعراض واستکبار اور روگردانی پر افسوس نہ کریں کہ یہ اپنی ضد وعناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر اس کے لائق ہیں ہی نہیں۔ سو قصور آپ کا نہیں ان کا اپنا ہے، (فلا تذھب نفسک علیہم حسرات) ۔ سو اس میں حضرت امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے لئے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے جب یہ لوگ اپنے عناد وہٹ دھرمی کی بناء پر ایمان لانے والے نہیں ہیں تو آپ ﷺ ان کی وجہ سے غمگین اور پریشان نہ ہوں۔ آپ کا کام تبلیغ حق اور ادائے رسالت ہے۔ اور وہ آپ کرچکے اور بتمام و کمال کرچکے۔ پس آپ اپنی ذمہ داری سے فارغ و سبکدوش ہوگئے۔ اب ان کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں۔ یہ اپنے حال ومآل اور نتیجہ وانجام کے خود ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ انہوں نے حق اور ہدایت کی دعوت کے مقابلے میں عناد اوہٹ دھرمی سے کام لیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top