Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 40
اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۠   ۧ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں قَوْلُنَا : ہمارا فرمانا لِشَيْءٍ : کسی چیز کو اِذَآ اَرَدْنٰهُ : جب ہم اس کا ارادہ کریں اَنْ نَّقُوْلَ : کہ ہم کہتے ہیں لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
(اور مر کھپ جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ہماری قدرت کے سامنے کچھ مشکل نہ سمجھو، کیونکہ) ہماری شان یہ ہے کہ جب ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں صرف اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ہوجا، پس وہ ہوجاتا ہے،3
81۔ اللہ تعالیٰ کی شان کن فیکون کا حوالہ وذکر : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت حق جل مجدہ کی شان کن فیکون کی شان ہے، چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور انما کے کلمہ حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ ہم جب کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ہمیں صرف اتنا ہی کہنا ہوتا ہے کہ ہوجاپس وہ ہوجاتا ہے۔ کہ اہل دنیا کی طرح ہم کوئی اسباب و وسائل یا وقت اور مہلت کے محتاج نہیں۔ بلکہ ہماری شان تو کن فیکون کی شان ہے کہ جو چاہا ہوگیا۔ جس کے ہونے کا حکم فرمایا گیا وہ وجود میں آگیا۔ سو اس کی اسی شان اقدس واعلیٰ کے مطابق قیامت اس کے حکم وارشاد کے مطابق پل بھر میں واقع ہوجائیگی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (وما امرنا الا واحدۃ کلمح بالبصر) " اور ہمارا معاملہ تو ایک کلمے کی طرح ہے جس نے پل بھر میں ہوکررہنا ہوتا ہے " (القمر : 50) ۔ نیز ارشاد فرمایا گیا (فانماھی زجرۃ واحدۃ فاذاہم بالساھرۃ) ۔ یعنی " قیامت کو بپا کرنے کے لئے تو محض ایک ڈانٹ اور جھڑکی ہوگی جس کے نتیجے میں یہ سب کے سب حشر کے اس کھلے میدان میں موجود ہوں گے " (النازعات : 13۔ 14) ۔ نیز فرمایا گیا۔ (ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ ان اللہ سمیع بصیر) یعنی " تم سب لوگوں کا دوبارہ زندہ کرکے اٹھانا ایک ہی شخص کے اٹھانے کی طرح ہے۔ بیشک اللہ سب کچھ سنتادیکھا ہے۔ " سبحانہ وتعالی۔ (لقمان : 28) سو تمہارے نزدیک اے منکرومرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا اگرچہ ایک انہونی اور ناممکن چیز ہے لیکن اللہ کے لئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں۔ اس قادر مطلق کے صرف ارادہ واشارہ کی دیر ہے اور بس۔ پس تم لوگ جو اس قادر مطلق کو اپنے اوپر قیاس کرکے ایسے عظیم الشان اور جلیل القدر حقائق کا انکار کرتے ہو تو یہی دراصل باعث اور سبب ہے تمہاری محرومی کا۔ جس کا نتیجہ وانجام تم لوگوں کو بڑی ہولناک صورت میں بھگتنا ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top