Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 65
وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ : بعد مَوْتِهَا : اس کی موت اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : نشانی لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّسْمَعُوْنَ : وہ سنتے ہیں
اور اللہ ہی آسمان سے پانی برساتا ہے (ایک بڑے ہی حکیمانہ نظام کے تحت) پھر اس کے ذریعے وہ زندہ کرتا ہے زمین کو اس کے مرچکنے کے بعد، بیشک اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں
124۔ وہی زندہ کرتا ہے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد : سو اسی طرح وہ تمہیں بھی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ (کذلک تخرجون) سو زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرنے کے اس عمل میں عظیم الشان دلائل ہیں اس کی قدرت وحکمت کے۔ سو تم لوگ ذرا سوچو اور غور کرو کہ کس طرح وہ بارش کے اس آب حیات کے ذریعے مردہ پڑی ہوئی اس زمین کو حیات تازہ سے نوازتا اور سرفراز کرتا ہے جس سے آگے طرح طرح کی انگوریاں نکلتیں اور پیداواریں ابھرتی ہیں۔ جن تم لوگ طرح طرح سے فیضیاب و مستفید ہوتے ہو۔ سو تم لوگ ذرا سوچو اور غور کرو کہ وہ کیسا قادر مطلق، حکیم مطلق اور کتنا وہاب و کریم ہے۔ اور جو اس سب کے باوجود اس کے آگے نہ جھکے وہ کس قدر ظالم اور کتنا بےانصاف ہے۔ والعیاذ باللہ۔ نیز اسی سے اس کی توحید اور وحدانیت ویکتائی اور حیات بعد الموت کے امکان اور اس کی ضرورت وقوع کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ نیز جب اس قادر مطلق نے تمہاری جسمانی، مادی اور ظاہری ضرورتوں کی تکمیل و تحصیل کے لئے اس قدر حکمتوں بھرا انتظام فرمایا تو پھر یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری ایمانی روحانی اور باطنی ضرورتوں کی تکمیل کا کوئی سامان نہ کرے ؟ جب کہ وہ ان ظاہری اور مادی ضرورتوں سے کہیں بڑھ کر اہم ہیں۔ سو اسی کیلئے اس نے انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔ ان پر اپنی کتابیں اتاریں۔ اور اس سلسلے کی تکمیل اس نے اب حضرت خاتم الرسل کی بعثت اور خاتم الکتب قرآن حکیم کو اتار کر فرمادی۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 125۔ سننے والوں کے لئے بڑی بھاری نشانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اس سب میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کیلئے جو سنتے ہیں گوش ہوش سے نہ کہ محض ظاہری کانوں سے بہائم کی طرح۔ سو جس سننے میں غور وفکر اور عبرت پذیری کا جذبہ کارفرما نہ ہو وہ سننا بہائم کا سننا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس غور وفکر اور عبرت پذیری کے نقطہ نگاہ سے سننے والوں کے لئے بڑی بھاری نشانی ہے اس کائنات کے خالق ومالک کے وجود باجود، اس کی وحدانیت ویکتائی اور اس کی قدرت وحکمت کی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب کچھ انہی لوگوں کیلئے جو صحیح طریقے سے سنتے ہیں جو اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر خداوند قدوس کے قانون کی زد میں ہوتے ہیں۔ ان کے کانوں کو کوئی بھی چیز نہیں کھول سکتی اور وہ (کالانعام بل ہم اضل) کا مصداق بن چکے ہیں یعنی چوپایوں جیسے بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top