Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 79
اَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ١ؕ مَا یُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
اَلَمْ يَرَوْا : کیا انہوں نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الطَّيْرِ : پرندہ مُسَخَّرٰتٍ : حکم کے پابند فِيْ : میں جَوِّ السَّمَآءِ : آسمان کی فضا مَا : نہیں يُمْسِكُهُنَّ : تھامتا انہیں اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں
کیا یہ لوگ ان اڑتے پھرتے پرندوں کو نہیں دیکھتے، جو کہ اس وحدہ لا شریک کے حکم کے بندھے فضائے آسمانی میں موجود ہیں، ان کو اس طرح روک (اور تھام) سکتا ہے سوائے اللہ کے ؟ بیشک اس میں بھی بڑی بھاری نشانیاں ہیں، ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں،
160۔ فضاؤں میں اڑتے پھرتے پرندوں میں سامان عبرت و بصیرت : سو ارشاد فرمایا گیا " اور کون ہو جو فضاء میں اڑتے ان پرندوں کو روک سکے سوائے اللہ کے ؟ " کوئی بھی نہیں۔ بلکہ یہ اسی کی قدرت ہے جو ایسے ثقیل جسموں کو بغیر کسی ظاہری اور مادی سہارے کے فضاء میں اس طرح تھامے رکھتی ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو قدرت کا یہ نشان جو ہر وقت تمہارے سامنے رہتا ہے آخر تم لوگ اس کے بارے میں غور کیوں نہیں کرتے کہ نہ اس پرندوں کے نیچے کوئی سہارا ہے اور نہ ہی ان کو اوپر سے کوئی چیز پکڑنے والی ہے تو ان کی اس طرح اس فضاء میں کون گرنے سے روک سکتا ہے سوائے اللہ کے۔ ان کو یہ اڑنا کس نے سکھایا ؟ پھر فضاؤں میں اڑتے پھرتے ان گوناگوں پرندوں کی روزی کا انتظام کون اور کیسے کرتا ہے۔ ان سب کو اپنی مرضی اور مزاج کے مطابق روزی ملتی ہے۔ تو پھر تم لوگ اس سے یہ سبق کیوں نہیں لیتے کہ روزی رساں سب کا اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ تو پھر تم لوگ اپنی روزی روٹی کے پیچھے لگ کر طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہو یہاں تک کہ اپنے خالق ومالک اور اس کے حق عبادت و بندگی تک سے غافل ہوجاتے ہو، آخر کیوں ؟ اللہ تعالیٰ زیغ وضلال کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ 161۔ دولت ایمان ایک عظیم الشان اور بےمثال دولت : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دولت ایمان و یقین دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی دولت۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ایمان والوں کیلئے کہ ایمان و یقین ہی کی دولت سے فکروفہم کو صحیح سمت کی طرف راہنمائی ملتی ہے۔ اور اسی کے نتیجے میں انسان کو راہ حق وصواب اور منزل مقصود و مراد سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے۔ ورنہ وہ ٹوٹی ہوئی پتنگ کی طرح حیرانی و پیشمانی اور ضلالت وغوایت کی وادیوں میں بھٹکتارہتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ایمان و یقین کی دولت انسان کو دارین کی سعادت وسرخرائی سے بہرہ وروسرفراز کرنے والی دولت ہے کہ اسی سے انسان کو اپنی منزل مقصود سے آگہی نصیب ہوتی ہے۔ اور وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوتا ہے۔ اور ایمان کی بدولت وہ آخرت کی اپنی حقیقی اور ابدی زندگی کیلئے تیاری کرتا ہے اور ایک بامقصد فکرمند اور صحیح معنوں میں ذمہ دار شخص بن کر زندگی گزارتا ہے اور سعادت دارین سے سرفرازی کا سامان کرتا ہے۔ فالحمد اللہ الذی شرفنا بنعمۃ الا ایمان۔ اللہم فزدنا منہ وثبتنا علیہ یاذالجلال والاکرام۔
Top