Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 8
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةً١ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَّالْخَيْلَ : اور گھوڑے وَالْبِغَالَ : اور خچر وَالْحَمِيْرَ : اور گدھے لِتَرْكَبُوْهَا : تاکہ تم ان پر سوار ہو وَزِيْنَةً : اور زینت وَيَخْلُقُ : اور وہ پیدا کرتا ہے مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور گھوڑے خچر، گدھے بھی، (اس نے تمہارے لئے پیدا فرمائے) تاکہ تم ان پر سواری بھی کرو اور وہ تمہاری رونق بھی بنیں، اور وہ اور بھی ایسی ایسی چیزیں پیدا فرماتا ہے (اور آئندہ پیدا فرمائے گا) جن کی تم لوگوں کو خبر بھی نہیں،2
13۔ سواریوں کی نعمت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی نے تمہارے لئے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواری بھی کرسکو اور یہ تمہارے لئے زیب وزینت کا ذریعہ بھی بنیں، سو تم لوگ ذرہ دیکھو تو سہی اور غور تو کرو کہ اس خالق کل اور مالک مطلق نے تمہاری سواری اور باربرداری کے لئے کیسا حکمتوں بھرا انتظام فرمایا ہے جس سے تم لوگ ہمیشہ اور طرح طرح سے مستفید و فیضاب ہوتے ہو پھر بھی تم اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، اور اس کا حق شکر نہیں ادا کرتے یہ کیسی بےانصافی اور کس قدر ظلم و ناشکری ہے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ جن حضرات علماء وائمہ کرام کے نزدیک گھوڑے کا گوشت کھانا جائز نہیں انہوں نے آیت کریمہ سے بھی اس پر اس استدلال کیا ہے کہ اگر ان کا گوشت کھانا جائز ہوتا تو اس کا ذکر یہاں ضرور فرمایا جاتا، کہ وہ سب سے بڑا نفع ہے، پس اس کا ذکرنہ کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جائز نہیں۔ اس کے مقابلے میں دوسرے حضرات نے متعدد احادیث سے استدلال کیا ہے جو کہ صحیحین وغیرہ میں وارد ہیں۔ اور آیت کریمہ سے اس استدلال کے مختلف جوابات بھی دیئے ہیں۔ والتفصیل فی المطولات، وسنذکرہ فی التفسیر المفصل انشاء اللہ، ورزقنا التوفیق، فھو الموفق والمسؤل لکل خیر وسعادۃ۔ بہرکیف یہ قدرت کے ایک اور انعام اور احسان کا ذکر ہے کہ اس نے تمہارے لیے طرح طرح کی سواریوں کا انتظام فرمایا۔ تاکہ تم ان سے طرح طرح کے فائدے بھی اٹھاؤ اور یہ تمہارے لیے زیب وزینت کا سامان بھی بنیں، سو کس قدر مہربان ہے تمہارا وہ رب جس نے تمہارے لیے اور تمہاری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ایسے ایسے عظیم الشان اور بےمثال انتظام فرمائے۔ اور تمہاری طرف سے کسی طرح کی اپیل و درخواست کے بغیر فرمائے۔ اور جن سے تم لوگ دن رات اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہو۔ تو پھر سوچو کہ اس رب رؤف ورحیم و غفور و کریم سے منہ موڑنا کس قدر ظلم اور کتنی بڑی ناانصافی ہے ؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسان اس کی بخشی ہوئی ان نعمتوں کو ان دوسروں سے منسوب کرے جن کا اس عطاء وبخشش میں سرے سے کوئی عمل دخل ہی نہیں اور اس کے باوجود ایسے لوگوں کو ڈھیل اور چھوٹ کا ملنا اس رب غفور کا کتنا بڑا حلم وکرم ہے سبحانہ وتعالیٰ ۔ 14۔ مزید طرح طرح کی سواریوں کی طرف اشارہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ تمہارے لئے اور ایسی سواریاں بھی پیدا فرمائے گا جن کی تم کو خبر بھی نہیں۔ جن سے تم لوگ قفاروبخار اور خشکی وتری میں مستفید ہوتے ہو۔ اور جن کے ذریعے تم لوگ دن رات سفر کرتے اور طرح طرح سے فائدے اٹھاتے ہو۔ چناچہ آج تک تکثیر وسائل اور سہولت وصول کی بناء پر کتنی ہی نت نئی مخلوقات اور مصنوعات ایسی ہیں جو اس انسان محدود العلم والا دراک کے علم و مشاہدہ میں آچکی ہیں۔ اور کتنی ہی ایسی ہیں جن کو یہ اب تک نہیں جان سکا ہے۔ جوں جوں اس کا علم ترقی کرتا جائے گا یہ ان کی آگہی حاصل کرتا جائے گا۔ اور کتنی ہی وہ عجیب وغیریب اور حیرت انگیز ایجادات اور نت نئے وسائل ہیں جو انسان اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت اور اس کے الہام و معرفت سے آج تک خود منصہ شہود وجود پر لاچکا ہے۔ آخر یہ موٹریں اور گاڑیاں، ریلیں اور بحری وہوائی جہاز اور خلائی شٹل وغیرہ وغیرہ جو آج ہم چاروں طرف اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جن کے بارے میں اپنے کانوں سے سنتے ہیں نزول قرآن مجید کے وقت کہیں کسی کے تصور میں بھی آسکتی تھیں ؟ تو پھر اس بارے میں قرآن حکیم کی اعجاز بیانی ملاحظہ ہو کہ۔ (ویخلق مالا تعلمون) کے عموم واجمال سے قیامت تک معرض وجود میں آنے والی ایسی سب چیزوں کا بالاجمال ذکر فرما دیا گیا ہے۔ ورنہ اگر کہیں ان میں سے کچھ اشیاء کی نزول قرآن کے وقت نام لے کر تصریح فرما دی جاتی توکتنے ہی لوگ ان عجائب کو ناممکن قرار دے کر ان کے منکر ہوجاتے۔ اور اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیتے۔ مگر قرآن پاک کی اس اعجاز بیانی کے مقابلے میں نہ اس وقت کوئی آواز اٹھا سکا اور نہ اب کسی کے لئے اس کی کوئی گنجائش ہے اور نہ آئندہ قیامت تک ہوسکے گی۔ فالحمد للہ رب العالمین۔ سو انسانی فکروکاوش سے جو قسما قسم کی سواریاں اب تک منصہ شہود وجود پر آچکی ہیں یا آئندہ قیامت تک آئیں گئی وہ اس جملہ کریمہ کے عموم میں داخل وشامل ہیں۔ سو اس قسما قسم کی سواریوں سے انسان کی راحت و سہولت کی طرح طرح کی صورتیں بھی وابستہ ہیں۔ اور یہ اس کے لئے زیب وزینت کے عظیم الشان سامان بھی ہیں۔ سو اس سب کا تقاضا تھا کہ انسان اس کے نتیجے میں اس وحدہ لاشریک کے حضور دل وجان سے جھک جاتا اور دل وجان سے اس کا شکر ادا کرکے واجب شکر کی ادائیگی سے سبکدوش بھی ہوتا۔ اور اپنے لیے سعادت دارین سے سرفرازی کا سامان بھی کرتا۔ مگر وہ اس کے برعکس اس واہب مطلق اور اس کی عنایات کو بھول کر اپنی نمود نمائش اور دوسروں کی پوجا و بندگی میں لگ جاتا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بکل حال من الاحوال۔
Top