Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 93
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَجَعَلَكُمْ : تو البتہ بنا دیتا تمہیں اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک امت وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے وَ : اور يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَلَتُسْئَلُنَّ : اور تم سے ضرور پوچھا جائیگا عَمَّا : اس کی بابت كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور اگر اللہ چاہتا (کہ تمہارے اندر کوئی اختلاف ہو ہی نہ) تو وہ یقیناً (بڑی آسانی سے) تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، مگر وہ (اپنے دستور عدل و حکمت کے مطابق) جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت (کی دولت) سے نواز دیتا ہے، اور (یاد رکھنا کہ تمہیں یونہی چھٹی نہیں ملی رہے گی، بلکہ) تم سب سے ضرور باز پرس ہونی ہے، ان سب کاموں کے بارے میں جو تم لوگ کرتے رہے تھے (اپنی زندگیوں میں2)
206۔ جبرواکراہ کا ایمان مطلوب نہیں :۔ ورنہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ جبرا وقہرا اس طرح کہ تمہیں اس کے حکم سے سرتابی اور قوت کی گنجائش اور قوت ہی نہیں رہتی۔ جیسا کہ یہ پوری کائنات اس قادر مطلق کے حکم مطلق کے تابع ہے۔ (کل لہ قانتون) ۔ اور ایسا کرنا اس قادر مطلق کیلئے کچھ مشکل نہیں تھا۔ بلکہ محض اس کے ایک اشارہ و ارادہ کی دیر تھی اور بس۔ لیکن ایسی جبری ہدایت سے امتحان واختیار کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔ اس لئے اس وحدہ لاشریک نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ تمہارا معاملہ خود تمہارے اپنے ارادہ اختیار پر چھوڑ دیا۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ خیر وشر اور ہلاکت و فلاح کے دونوں راستے تمہارے سامنے واضح کرنے کے بعد معاملہ تمہارے اختیار پر چھوڑ دیا تاکہ اس طرح انسان اپنے کیے کرائے پر اجروثواب یا عتاب و عذاب کا مستحق قرار پائے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو مطلوب و مقصود وہ ایمان ہے جو انسان اپنے ارادہ واختیار سے اللہ اور اس کے رسول کے حکم وارشاد کے مطابق لائے۔ ورنہ جبرواکراہ والا ایمان نہ مطلوب ہے نہ مفید۔ کیونکہ اس سے نہ ابتلاء و آزمائش کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اجر وثواب کا استحقاق ثابت ہوسکتا ہے۔ 207۔ انسان کے معاملے کا مداروانحصار اس کی اپنی نیت و ارادہ پر :۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اسی کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت سے نواز دیتا ہے “ کہ وہ ہر ایک کی نیت اور اسکے باطن سے پوری طرح آگاہ ہے اور جانتا ہے کہ کس لائق ہے۔ اور اس کی کے مطابق وہ تمہارے ساتھ معاملہ فرماتا ہے۔ سو اصل مدارو معیار انسان کا اپنا ضمیر وباطن ہے۔ ہر کوئی اپنے باطن کو خود جھانک کر دیکھ لے اور اسی کے مطابق وہ اس کے یہاں صلہ وثمرہ کی توقع رکھے۔ فوفقنا اللہم لما تحب وترضی۔ سو ہدایت کا مدارو انحصار انسان کے اپنے باطن اور اس کے ارادہ ونیت پر ہے۔ اور نیت کا حال انسان خود جانتا ہے یا اس کا خالق ومالک جو کہ انسان کے دل کے نیتوں اور اس کے ارادوں سے واقف وآگاہ ہے۔ اور وہ اس کے ظاہر وباطن کو ایک برابر جانتا ہے۔ اور اس سے انسان کی کوئی حالت و کیفیت مخفی نہیں رہ سکتی۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 208۔ یوم حساب کی باز پرس کی تذکیر ویاد دہانی :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور تم لوگوں سے ضرور پوچھ ہوگی تمہارے کاموں کی “۔ اپنے کئے کا بھگتان تمہیں بہرحال بھگتنا ہوگا۔ والعیاذ باللہ من کل سوء وشر۔ سو یوم حساب کے اس عظیم میں سب لوگوں کی باز پرس بہرحال ہوگی کہ تم نے زندگی کس راہ پر گزاری تھی۔ اپنے خالق ومالک کی اطاعت و بندگی کی راہ پر یا اس کی بغاوت و سرکشی کی راہ پر۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور اسی کے مطابق وہاں فیصلہ ہوگا۔ سعادت مند اور نیک بخت لوگ اپنے ایمان وعمل کے نتیجے میں جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز و سرشار ہوں گے اور اس کے مقابلے میں بغاوت و سرکشی کی راہ پر چلنے والوں کو دوزخ کے ہولناک عذاب میں جھونک دیا جائے گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ہدایت و ضلالت کے درمیان فرق وتمیز کیلئے اللہ تعالیٰ نے تمہیں نور عقل و فطرت سے بھی نواز دیا اور اپنے انبیاء ورسل اور وحی و کتاب کی روش سے بھی تمہیں سرفراز فرما دیا اور راہ حق و ہدایت کو پوری طرح واضح کردیا۔ اب آگے معاملہ تمہارے ارادہ واختیار پر ہے۔ تم جونسی راہ چاہو اختیار کرو لیکن یہ بات یاد رکھو کہ تم سے تمہارے ان تمام کاموں کے بارے میں ضرور پوچھ ہوگی جو تم زندگی بھر کرتے رہے تھے۔ سو اب تم اپنے بھلے برے کے بارے میں خود دیکھ لو اور سوچ لو۔ اور اس کے مطابق اپنا راستہ خود منتخب کرلو۔ مگر یاد رکھو کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ فباللہ التوفیق لما یحب ویرید وھو الھادی الی سواء السبیل۔
Top