Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 33
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا
وَ : اور لَا تَقْتُلُوا : نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : وہ جو کہ حَرَّمَ اللّٰهُ : اللہ نے حرام کیا اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَمَنْ : اور جو قُتِلَ : مارا گیا مَظْلُوْمًا : مظلوم فَقَدْ جَعَلْنَا : تو تحقیق ہم نے کردیا لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارث کے لیے سُلْطٰنًا : ایک اختیار فَلَا يُسْرِفْ : پس وہ حد سے نہ بڑھے فِّي الْقَتْلِ : قتل میں اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے مَنْصُوْرًا : مدد دیا گیا
اور قتل نہیں کرنا کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرام کر رکھا ہو، مگر حق کے ساتھ، اور جس کو قتل کیا گیا ظلم (و زیادتی) کے ساتھ، تو اس کے وارث کو ہم نے ایک بڑا زور (اور غلبہ) دیا ہے، پس وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، یقیناً اس کی مدد کی جائے گی
61۔ قتل ناحق کی ممانعت :۔ سو فرمایا گیا ” اور قتل نہ کرنا کسی حرمت والی جان کو مگر حق کے ساتھ قتل کرنے کی صحیح حدیث کے مطابق بنیادی طور پر صورتیں ہیں۔ احصان کے بعد زنا کرنا۔ یا ناحق کسی کو قتل کرنا یا مرتد ہوجانا۔ والعیاذ باللہ۔ یعنی اگر کسی نے جریمہ زنا کا ارتکاب کیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ جبکہ وہ محصن ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے یا اگر کسی نے کسی حرمت والی جان کو قتل کیا تو اس کے بدلے میں اس کو قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ یا اگر کوئی دین حق سے پھر گیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ تو اس کے نتیجے میں اس کو قتل کیا جائے گا۔ کہ اسیے میں اس شخص کی جان محترم نہیں رہتی مباح الدم ہوجاتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ایسے کسی سبب کے بغیر کسی جان کو قتل کرنا ان بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے جن کو لسان نبوت کے فرمان حق ترجمان میں سبع موبقات یعنی سات تباہ کن گناہوں میں سے قرار دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود قتل ناحق کے اس کبیرہ گناہ کا ارتکاب اعلانیہ کیا جا رہا ہے اور جگہ جگہ اور طرح طرح سے کیا جارہا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 62۔ اولیائے مقتول کیلئے پورا اختیار :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” ہم نے مقتول کے وارث کو بڑا زور اور پورا اختیار دیا ہے “۔ سو اس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو قاتل سے قصاص لے، یا دیت پر راضی ہوجائے۔ یا اس کو یونہی معاف کردے۔ جو بھی کرے اس کا اس کو پورا حق واختیار ہے۔ (ابن کثیر، فتح القدر، المراغی، صفوۃ اور جامع وغیرہ) ۔ اور نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے دن ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا تو مقتول کے وارثوں کو دو میں سے ایک کا اختیار ہے۔ اگر وہ چاہیں تو قاتل کو قتل کردیں اور اگر چاہیں تو دیت قبول کرلیں۔ (تفسیر المراغی وغیرہ) سو اس طرح سارا زور اور اختیار مقتول کے ولی اور وارث کو دے دیا گیا۔ اور جس کا کوئی وارث موجود نہ ہوگا یہ اختیار حاکم کو دیا جائے گا۔ جو کہ مقتول کے وارث کے قائم مقام ہوگا۔ (المعارف اور المراغی وغیرہ) 63۔ ولئی مقتول کو حد سے بڑھنے کی ممانعت :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” پس وہ قتل میں سے حد سے نہ گزرے “ یعنی جب ہم نے اس کو ایک زور اور غلبہ دیا ہے تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے۔ کہ قاتل کے سوا اور کسی کے قتل کے درپے ہوجائے۔ یا ایک کے بدلے دو کو یا زیادہ کو قتل کر دے۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا اور آج بھی کئی جگہوں پر ایسا ہوتا ہے جہاں لوگ قانون سے آزاد قبائلی ماحول میں رہتے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ سو جب اللہ نے ولئی مقتول کیلئے غلبہ رکھا ہے اور اس کو منصور بنایا ہے کہ اس کیلئے قصاص یا دیت کا حق مقرر فرمایا گیا اور امراء وحکام کو اس کو حق اس کو دلانے کا حکم دیا ہے، اس لیے اس کو قتل میں زیادتی نہیں کرنی چاہئے۔ ورنہ وہ ظالم اور معتدی قرار پائے گا۔ پس اس کو حد کے اندر رہنا چاہیے۔ (المعارف اور المحاسن وغیرہ)
Top