Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 6
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِیْرًا
ثُمَّ : پھر رَدَدْنَا : ہم نے پھیر دی لَكُمُ : تمہارے لیے الْكَرَّةَ : باری عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَمْدَدْنٰكُمْ : اور ہم نے تمہیں مدد دی بِاَمْوَالٍ : مالوں سے وَّبَنِيْنَ : اور بیٹے وَجَعَلْنٰكُمْ : اور ہم نے تمہیں کردیا اَكْثَرَ : زیادہ نَفِيْرًا : جتھا (لشکر)
پھر (اس کے بعد تمہاری ندامت و توبہ پر) ہم تمہیں دوبارہ غلبہ عطا کردیں گے ان پر، اور تمہاری مدد کریں گے طرح طرح کے مالوں اور بیٹوں (کی کثرت) سے، اور بڑھا دیں گے ہم تمہاری (تعداد اور) نفری کو،
13۔ بنی اسرائیل کیلئے دوبارہ غلبہ وعطاء کا وعدہ :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر ہم تمہیں دوبارہ غلبہ عطاء کریں گے اور جان ومال سے تمہاری مدد کریں گے جبکہ تم لوگ اپنی اصلاح اور درستی کی طرف متوجہ ہوؤگے۔ چناچہ ایسے ہی ہوا اس لٹی پٹی اجڑی بکھری اور تہس نہس شدہ قوم کو حضرت شدہ قوم کو حضرت حق۔ جل مجدہ۔ نے اپنی قدرت کاملہ اور رحمت شاملہ سے پھر اٹھایا۔ یہاں تک کہ یہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی اور بابلیوں سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کے قابل ہوگئی۔ ان سے لڑ کر انہوں نے اپنے قیدیوں کو چھڑا لیا۔ اپنے لوٹے ہوئے مال ان سے واپس لے لئے اور ان کے مال و اولاد میں خوب ترقی ہوئی۔ (المراغی، الفتح وغیرہ) ۔ واضح رہے کہ یہ ذلیل اور ظالم قوم تاریخ میں ہمیشہ لٹتی پٹتی اور پستی رہی یہاں تک ہماری اسی صدی کے لواسط میں ہٹلر نے ان کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور اس کو ان یہود بےبہبود سے اتنی نفرت تھی کہ اس کا کہنا تھا کہ یہ جونکیں ہیں جنہوں نے میری قوم کا خون چوسا ہے۔ لہذا ان کو مار کر میرے ملک کی اس دھرتی میں اس طرح گاڑ دو اور ان کو اس ملک کی مٹی میں دفن کرکے اس طرح ملادو کہ ان کو چوسا ہوا وہ خون واپس اس دھرتی اور اس مٹی میں مل جائے۔ چناچہ اس نے انکومارنے اور مٹانے کیلئے ایسی خصوصی مشینیں لگائیں اور (Special Plants) تیار کئے کہ ان میں ان کو ایک طرف سے ڈالا جاتا اور دوسری طرف سے ان کے وجود پس کرسیال مادے کی شکل میں بہہ نکلتے۔ اور اس طرح اس نے ان کو چن چن کرمارا اور چھ ملین (ساٹھ لاکھ) کا اس نے صفایا کردیا۔ جس پر یہ لوگ آج تک کوس رہے ہیں۔ اور ان دنوں میں بھی راقم آثم یہ سطور تحریر کررہا ہے جرمنی کے ان یہودیوں کی دولت اور انکے اثاثوں کے بارے میں اخبارات وغیرہ میں کافی شورغوغاچل رہا ہے۔ جب کہ مرے ہوئے پچاس سال سے بھی اوپر ہورہے ہیں۔ اور یہ اس قوم کیلئے اللہ کا عذاب ہے جو کہ ہمیشہ ان پر مسلط رہا اور رہے گا۔ اور جس سے انکوخبردار بھی کردیا گیا تھا۔ جیسا کہ سورة اعراف میں اس بارے میں اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے۔ (واذ تاذن ربک لیبعثن علیہم الی یوم القیامۃ من یسومہم سوء العذاب) ۔ الایۃ (اعراف : 167) ” اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب تمہارے رب نے اعلان فرما دیا تھا کہ وہ ضرور بالضرور مسلط رکھے گا ان پر قیامت تک کسی نہ کسی ایسے شخص کو جو ان کو سخت ( اور برا) عذاب چکھاتا رہے گا۔ “ اس لئے یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت کریمہ میں اس قوم کی جن دوسرکشیوں اور ان پر ملنے والے جن دو عذابوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ان سے کون سے دو فساد اور کونسے مراد دو عذاب مراد ہیں ؟ سو اس کے جواب میں اس قوم کی عبرتناک تاریخ کے حوالے سے حضرات مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ ہم نے ان میں سے زیادہ مشہور قول کو لیا ہے کہ پہلے عذاب سے مراد بخت نصروالا عذاب ہے جو ان کو مجوس فارس کے ذریعے دیا گیا۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ باقی تفصیلات انشاء اللہ اپنی مفصل تفسیر میں عرض کریں گے اگر قدرت کو منظور ہوا اور اس کا موقع ملا۔ واللہ الموفق لکل خیروھو المستعان لکل خیروھو المستعان لکل غیروھو علی کل شیء قدیر فعلیہ نتوکل وبہ نستین، سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top