Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ : اگر اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی لِاَنْفُسِكُمْ : اپنی جانوں کے لیے وَاِنْ : اور اگر اَسَاْتُمْ : تم نے برائی کی فَلَهَا : تو ان کے لیے فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آیا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : دوسرا وعدہ لِيَسُوْٓءٗا : کہ وہ بگاڑ دیں وُجُوْهَكُمْ : تمہاری چہرے وَلِيَدْخُلُوا : اور وہ گھس جائیں گے الْمَسْجِدَ : مسجد كَمَا : جیسے دَخَلُوْهُ : وہ گھسے اس میں اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّلِيُتَبِّرُوْا : اور برباد کر ڈالیں مَا عَلَوْا : جہاں غلبہ پائیں وہ تَتْبِيْرًا : پوری طرح برباد
(سو) اگر تم نے اچھا کیا تو اپنے ہی لئے کرو گے، اور اگر تم نے برائی کی تو اس کا وبال بھی خود تم ہی لوگوں پر ہوگا، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آئے گا (تو ہم تم پر دوبارہ اپنے ایسے بندے مسلط کردیں گے) تاکہ وہ حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں تمہارے چہروں کا، اور تاکہ وہ داخل ہوجائیں مسجد میں، جیسا کہ وہ اس میں داخل ہوگئے تھے پہلی مرتبہ، اور تاکہ وہ تمہیں تہس کر کے رکھ دیں، ہر اس چیز کو جس پر ان کا قابو چلے (اور ہاتھ پڑے1)
14۔ انسان کی اچھائی اس کے خود اپنے ہی لئے :۔ سو اس اصولی کلیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ ” اگر تم نے اچھا کیا تو اپنے ہی لیے کرو “ کہ اس کا فائدہ اور صلہ وثمرہ خود تم ہی کو پہنچے گا نہ کہ حضرت حق۔ جل مجدہ کو کہ وہ اس طرح کے ہر تصور سے پاک اور بےنیاز ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو اگر تم نے اپنے رب کی اطاعت کا راستہ اپنایا اس کے اوامر وارشادات کی اطاعت و اتباع کی اور اس کے نواہی و مناہی سے بچتے رہے تو اس سے تمہیں اس دنیا میں عزت و غلبہ اور خیروبرکت نصیب ہوگی۔ تمہارا رب تمہارے دشمنوں سے تمہاری حفاظت فرمائے گا اور آخرت میں اس کی بناء پر تمہیں ان عظیم الشان جنتوں سے سرفرازی نصیب ہوگی جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہونگی اور تم لوگ اللہ کی رضاء و خوشنودی کے شرف سے مشرف ہوگے جو کہ سب سے بڑی روحانی اور معنوی نعمت ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔ (رضوان من اللہ اکبر) ۔ (التوبہ : 72) اور اس کے برعکس اگر تم نے برائی کا راستہ اپنایا تو اس کا وبال بھی خود تم ہی کو بھگتنا ہوگا۔ دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کی صورت میں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ (المراغی وغیرہ) ۔ سو اس اصولی ارشاد سے واضح فرمادیا گیا کہ انسان کی اچھائی اور بھلائی خود اس کے اپنے لیے ہے۔ اور اس کی برائی کا وبال بھی خود اسی پر پڑے گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آج مسلمانوں کا جو حال ہے اور پوری دنیا میں ان کو جس ذلت وادبار کا سامنا ہے اور جن ہولناک اور لرزہ خیز مظالم کا ان کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس کے بھی بڑی حد تک ذمہ دار یہ مسلمان خود ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی، کتنے ہی صاف وصریح احکام کی، علی الاعلان مخالفت کررہے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کتنے ہی نام نہاد مسلمان اور خاص کر حکمران طبقے کے لوگ ایسے ہیں جو کہ حق گو علمائے کرام کو حق گوئی سے روکتے ہیں۔ ان کی زبان بندی کیلئے طرح طرح کے ظالمانہ کالے قوانین بناتے اور ان پر نت نئی پابندیاں لگاتے ہیں۔ (فانا للہ وانا الیہ راجعون) اللہم اجرنا فی ما اصابنامن المصائب واخلف لنا خیرامنھا انت المستعان، علیک التکلان، فی کل حین وان۔ 15۔ بنی اسرائیل کی دوسری سرکشی اور عذاب کا ذکر :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” پھر دوسری مرتبہ کے عذاب کا وقت آیا تو ہم نے تم پر دوسرے لوگ مسلط کردیئے تاکہ وہ حلیہ بگاڑ کر رکھ دین تمہارے چہروں کا “ چناچہ اس مرتبہ مجوس فارس نے ان پر چڑھائی کی اور انکو تہس نہس کرڈالا (بیضاوی، مراغی، صفوۃ وغیرہ) ۔ اور انہوں نے ان کی سب تعمیروترقی کو خاک میں ملادیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ایک طویل عرصے کی غلامی اور تذلیل و تحقیر کے بعد تم لوگوں کو جس نجات اور از سرنو بحالی کی نعمت سے سرفراز کیا گیا اس میں یہ درس مضمر تھا کہ اگر تم بھلائی کی روش اختیار کروگے تو خود تمہارا اپنا بھلا ہے۔ اور اس کے برعکس اگر تم لوگوں نے حسب سابق پھر سرکشی سے کام لیا تو ان کا انجام بھی تم کو پہلے کی طرح بھگتنا پڑے گا اور تمہیں اس سے تمہاری سرکوبی کیلئے اپنے دوسرے زور آور بندے تم پر مسلط کردیے تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ کر رکھ دیں۔ اور تاکہ یہ بھی مسجد میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح کہ پہلے والے گھس گئے تھے۔ اور تاکہ یہ ہر اس چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دین جن پر ان کا زورچلے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے آمین۔
Top