Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 8
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا
عَسٰي : امید ہے رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَنْ : کہ يَّرْحَمَكُمْ : وہ تم پر رحم کرے وَاِنْ : اور اگر عُدْتُّمْ : تم پھر (وہی) کرو گے عُدْنَا : ہم وہی کرینگے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے حَصِيْرًا : قید خانہ
ہوسکتا ہے تمہارا رب تم پر رحم فرما دے اور اگر تم نے پھر وہی کچھ کیا (جو اس سے پہلے کیا تھا) تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے (جس کے تم مستحق ہوؤ گے) ، اور ہم نے بنا رکھا ہے جہنم کو کافروں کے لئے ایک بڑا ہی ہولناک قید خانہ،2
16۔ بنی اسرائیل سے آئندہ کیلئے رحمت کا وعدہ اور انکو حق کی دعوت :۔ ہوسکتا ہے تمہارا رب رحم فرما دے تم لوگوں پر اگر تم نے اپنی اصلاح کرلی اور اپنی روش کو درست رکھا تو “ (عسی) کا لفظ یہاں پر وعدہ و یقین کے معنی میں ہے کہ یہ شاہانہ کلام کا ایک خاص اسلوب و اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر وعدہ و یقین کو عام طور پر ” عیسیٰ “ اور ” لعل “ جیسے الفاظ امید وترجی سے ہی ادا کیا جاتا ہے۔ (کبیر، صفوۃ وغیرہ) اور یہاں تو یہ باشاہ حقیقی اور احکم الحاکمین کے کلام صدق ترجمان میں ذکر ہوا ہے۔ تو پھر اس کے کہنے ہی کیا۔ سو اس میں بگڑے بھٹکے لوگوں کیلئے امید و رحمت کا پیغام ہے کہ تم لوگ اپنی اصلاح کرلو تو رحمت حق تم کو اب بھی اپنی آغوش میں لے لینے کو تیار ہے کہ اس خالق کل اور مالک مطلق کا کام اور اس کی شان ہی کرم کرنا اور رحمت فرمانا ہے۔ پس بندے کو ہمیشہ اور ہر حال میں اسی کی طرف جھکے رہنا چاہیے۔ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف یہ خطاب ان یہود سے ہے جو کہ ان آیات کریمات کے نزول کے وقت موجود تھے اور وہ حق کا ساتھ دینے کی بجائے کفار قریش کے ہمنوا وپشت پناہ بنے ہوئے تھے۔ سو ان سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا وہ تم لوگوں کو سنادیا گیا ہے۔ اب آئندہ کیلئے اگر تم لوگ اپنی خیریت چاہتے ہو تو نبی امی کی دعوت پر لبیک کہو جس کے ذریعے اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اور ساری دنیا کیلئے نجات وسعادت اور دارین کی فوز و فلاح سے سرفرازی کی راہ کھولی ہے۔ سو تم لوگوں نے اگر توبہ اور اصلاح کی اس راہ کو اپنایا تو تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے سرفرازی نصیب ہوگی۔ ورنہ محروم کے محروم رہوگے۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ وضلال۔ 17۔ قانون مکافات کی تذکیر و یاددہانی :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اگر تم نے پھر وہی کچھ کیا تو ہم بھی وہی کریں گے جس کے تم مستحق ہوؤگے “ پس تم لوگ جیسا کروگے ویسا بھروگے کہ قانون مکافات اور جزاء عمل کا تقاضا یہی ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ اور ہمارا یہ قانون عام، بےلاگ اور سب کے لئے یکساں ہے۔ سو اگر تم نے بغاوت و سرکشی کی راہ کو اپنایا، میرے احکام واوامر کی خلاف ورزی کی اور میرے رسولوں کے قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا تو پھر ہم بھی تم کو قتل، قید اور ذلت و خواری کے گذشتہ عذاب میں مبتلا کردیں گے۔ چناچہ یہود نے ایسا ہی کیا نبی آخرالزمان ﷺ کو جھٹلایا اور انکے قتل کی سازش کی تو اللہ نے بھی اپنے قانون مکافات کے مطابق ان کو اسی عذاب میں پکڑا جس کے یہ مستحق تھے۔ بنوقریظہ کو قتل کردیا گیا۔ بنوقینقاع اور بنونظیر کو جلاوطن۔ اور دوسروں پر جزیہ عائد کیا گیا۔ بہرکیف ان کو خبردار کیا گیا کہ اگر تم نے اسی طرح کی حرکتیں کیں جیسے پہلے کرتے آئے تو ہم وہی کچھ کریں گے جو پہلوں کے ساتھ کیا گیا۔ کہ یہی تقاضا ہے قانون مکافات۔ والعیاذ باللہ۔ 18۔ کافروں کیلئے دوزخ کا انتہائی ہولناک قیدخانہ :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور کافروں کیلئے ہم نے ایک بڑا ہی ہولناک قید خانہ تیار کر رکھا ہے “۔ اتنا بڑا اور اس قدر ہولناک کہ اس دنیا میں اس کا احاطہ و ادراک اور اس کا تصور کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس جو لوگ اپنے کفر وباطل سے باز نہ آئے اور کفر ہی پر انہوں نے جان دے دی تو ان کو لازما اس میں داخل ہونا ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو منکرین و مکذبین اور دشمنان حق ودین کو اس دنیا میں جس ذلت و رسوائی اور عذاب ونکال سے دوچار ہونا پڑتا ہے اسی پر بات ختم نہیں ہوجاتی۔ بلکہ یہ تو ان کے عذاب کی ایک معمولی سی قسط ہے۔ اصل عذاب تو ایسے بدبختوں کو آخرت کے اس ” دارالجزائ “ ہی میں ہوگا اور وہاں ان کیلئے دوزخ کا وہ ہولناک قیدخانہ تیار ہے جس کا اس جہاں میں تصور کرنا بھی کسی کیلئے ممکن نہیں۔ اور جس سے پھر نکلنے کی کوئی صورت بھی ایسے بدبختوں کیلئے ممکن نہ ہوگی۔ سو ان کے کفر وانکار کا اصل اور پورا بدلہ ان کو وہی ملے گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top