Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 102
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا
اَفَحَسِبَ : کیا گمان کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا اَنْ يَّتَّخِذُوْا : کہ وہ بنالیں گے عِبَادِيْ : میرے بندے مِنْ دُوْنِيْٓ : میرے سوا اَوْلِيَآءَ : کارساز اِنَّآ : بیشک ہم اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے نُزُلًا : ضیافت
تو کیا کافر لوگ پھر بھی یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز و حاجت روا بنالیں گے ؟ بلاشبہ ہم نے تیار کر رکھا ہے دوزخ کو کافروں کی مہمانی کے لیے
148 مشرکوں کی مشرکانہ ذہنیت کی بیخ کنی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا کافر لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں گے ؟ "۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے حضرت عزیر و مسیح کے ساتھ کیا۔ اور مشرکین عرب فرشتوں کے بارے میں ایسا کہتے اور کرتے تھے۔ اور افسوس کہ اس امت مرحومہ کے کلمہ گو مشرک کا بھی آج اپنے بڑوں بزرگوں کے بارے میں یہی کچھ کہنا کرنا ہے۔ وہ ان کو حاجت روا و مشکل کشا سمجھ کر غائبانہ بلاتا پکارتا، ان کے نام کی نذریں مانتا، نیازیں دیتا، چڑھاوے چڑھاتا، بکرے دنبے کاٹتا اور ان کے پھیرے لگاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور استفہام یہاں پر انکار و توبیخ کے لئے ہے۔ یعنی کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ میرے بندوں کے ساتھ تمہاری اس طرح کی یہ دوستی اور تعلق تمہیں نفع دے گا ؟ اور تم لوگوں کو میری پکڑ سے بچا سکے گا ؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بلکہ ہر ایک کو سچا ایمان و عقیدہ اور اس کا اپنا کردار و عمل ہی فائدے دے سکے گا اور بس۔ اور اللہ کے جن پیارے بندوں کے بارے میں انہوں نے اس طرح کی غلط توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور اس طرح غلو کیا ہے وہ الٹا ان کے خلاف ہوجائیں گے۔ کیونکہ ان مشرکوں کا اس طرح کرنا خود ان کی تعلیمات اور ہدایات کے خلاف اور منافی ہے۔ جیسا کہ سورة مریم میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَاتَّخُذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہۃً لِیَکُوْنُوْا لَہُمْ عِزََّا، کَلا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًُّا } ۔ (مریم :81 ۔ 82) ۔ سو اللہ کو چھوڑ کر اس کی مخلوق میں سے کسی بھی ہستی کو حاجت روا و مشکل کشا سمجھ کر پوجنا پکارنا جائز نہیں۔ اور یہ سب اس ارشاد ربانی کے عموم میں داخل اور ممنوع ہے۔ (روح، ابن کثیر، مراغی، محاسن، قرطبی، خازن، صفوۃ، جامع، معارف اور ماجدی وغیرہ) ۔ سو ایسے تمام تصورات غلط، بےبنیاد اور ہلاکت و تباہی کا باعث ہیں۔ سلامتی کی راہ جو کہ عقل و نقل کے عین مطابق ہے یہ ہے کہ انسان ایمان صادق کی دولت سے متمتع اور بہرہ مند ہو کر عمل صالح کی پونجی جمع کرے اور اللہ تعالیٰ کی ان پاکیزہ اور مقدس ہستیوں کو حاجت روا، مشکل کشا قرار دے کر شرک کرنے کی بجائے ان کو اسوئہ اور قدوہ قرار دے کر ان کی اتباع و پیروی کرے ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس ارشاد سے مشرکوں کی مشرکانہ ذہنیت کی بیخ کنی فرما دی گئی کہ تم لوگوں نے ہمارے بندوں میں سے کچھ کو جو اپنا کارساز و مددگار بنا رکھا ہے کہ یہ کل قیامت کے روز ہماری گرفت و پکڑ سے تمہیں چھڑا سکیں گے تو یہ محض تمہاری خوش فہمی ہے۔ ایسے کافروں اور مشرکوں کے لیے تو ہمارے یہاں جہنم کی ضیافت تیار ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ فکروعمل کی ہر کجی اور ہر قسم کے زیغ وضلال سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔
Top