Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 84
اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًاۙ
اِنَّا مَكَّنَّا : بیشک ہم نے قدرت دی لَهٗ : اس کو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دیا مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے سَبَبًا : سامان
بلاشبہ ہم نے اس کو زمین میں بڑا اقتدار بخشا تھا اور اس کو ضرورت کے مطابق ہر قسم کے ساز و سامان سے نوازا تھا2
128 ذو القرنین کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ ہم نے اس کو زمین میں بڑا اقتدار بخشا تھا اور اس کو ہر قسم کے سامان سے نوازا تھا۔ یعنی ان ذرائع و وسائل کی فراہمی جو نظام مملکت کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ سو ارشاد فرمایا گیا " اور ہم نے اس کو ضرورت کے مطابق ہر قسم کے سامان سے نوازا تھا "۔ یعنی { کل شیء } کا عموم اپنے ظاہر پر نہیں۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو دنیا بھر کی ہر چیز دی گئی تھی کہ ایسا نہ تھا اور نہ ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے۔ بلکہ اس سے مراد صرف وہ چیزیں ہیں جن کی سکندر کو اپنی حکمرانی کے لئے ضرورت تھی۔ اور یہی بلاغت کا ایک معروف ضابطہ و اصول اور اسلوب بھی ہے اور عقل و نقل کا تقاضا بھی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے " عُمُوْمُ کُلِّ شَیْئٍ مَا یُنَا سِبُہ " یعنی " ہر چیز کے عموم سے مراد وہی مفہوم ہوتا ہے جو اس کے مناسب ہو "۔ سو حضرت ذوالقرنین کو اپنی حکومت چلانے اور اپنی فتوحات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جس علم و حکمت، زور و قوت، اسباب اقتصاد و معیشت اور سامان حرب و ضرب وغیرہ کی ضرورت تھی وہ سب ہم نے ان کو بہم پہنچا دیا تھا۔ اور ان کو اپنی قدرت و عنایت کی بناء پر اس سے نواز دیا تھا۔ (المراغی، المحاسن وغیرہ) ۔ اور حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ اس کو ذو القرنین اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ظاہری اعتبار سے دنیا کے دونوں کونوں یعنی مشرق و مغرب تک پہنچ گیا تھا۔ اور مشرق سے لے کر مغرب تک کی دنیا کا فرمانروا اور بادشاہ بن گیا۔ اور ظاہری اور باطنی دونوں علوم کی روشنی سے منور و مالامال ہوگیا۔ (فتح الباری جلد 6 صفحۃ 272 وعمدۃ القاری جلد 7 صفحۃ 327 وغیرہ) ۔ والحمد للہ جل وعلا فانہ ہو الوہاب سبحانہ وتعالی -
Top