Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 90
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًاۙ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَطْلِعَ : طلوع ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے اس کو پایا تَطْلُعُ : طلوع کر رہا ہے عَلٰي قَوْمٍ : ایک قوم پر لَّمْ نَجْعَلْ : ہم نے نہیں بنایا لَّهُمْ : ان کے لیے مِّنْ دُوْنِهَا : اس کے آگے سِتْرًا : کوئی پردہ
یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتاب کے مقام کو پہنچ گیا تو وہاں اس نے سورج کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے پایا جس کے لیے ہم نے سورج کے ادھر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی،
134 ذوالقرنین کی مشرقی مہم کا ذکر : سو اس سے ذوالقرنین کی دوسری مہم اور ایک اور قوم کا ذکر فرمایا گیا اور اس کی یہ مہم مشرقی جانب تھی۔ { سِتْراً } نکرہ ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی ان لوگوں کیلئے سورج کی گرمی اور اس کی دھوپ سے بچنے کیلئے کوئی آڑ نہیں تھی کہ نہ ان کے جسموں پر لباس تھے اور نہ ان کے رہنے کو مکان اور نہ ہی درختوں وغیرہ کے سائے جو ان کو سورج کی گرمی وغیرہ سے بچا سکیں۔ بلکہ ان کا حال یہ تھا کہ سورج نکلنے پر وہ زمین کے اندر غاروں میں کہیں چھپ جاتے اور اس کے ڈوبنے پر باہر نکل آتے۔ (ابن جریر، ابن کثیر، کشاف، کبیر، مراغی اور صفوۃ وغیرہ) ۔ سو اپنی مغربی مہم کی طرح وہ اپنی مشرقی مہم میں بھی اس کی آخری حدود تک پہنچ گیا اور ان کے بارے میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے درمیان اور سورج کے درمیان کوئی آڑ نہیں تھی تو اس سے اس قوم کے انتہائی وحشی اور غیر متمدن ہونے کی تصویر پیش فرما دی گئی۔ سو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کچھ ایسے وحشی قبائل تھے جو گھر در اور تعمیر و تمدن سے بالکل نا آشنا اور اپنی وحشت کے بالکل ابتدائی دور میں تھے۔ اور بالکل وحشیانہ اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس طرح ذوالقرنین کی آمد ان کے لیے باعث خیر وبرکت بن گئی ۔ والحمد للہ -
Top