Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 98
قَالَ هٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّیْ١ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَهٗ دَكَّآءَ١ۚ وَ كَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّاؕ
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ رَحْمَةٌ : رحمت مِّنْ رَّبِّيْ : میرے رب سے فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا وَعْدُ : وعدہ رَبِّيْ : میرا رب جَعَلَهٗ : اس کو کردیگا دَكَّآءَ : ہموار وَكَانَ : اور ہے وَعْدُ : وعدہ رَبِّيْ : میرا رب حَقًّا : سچا
ذوالقرنین نے کہا یہ ایک خاص رحمت ہے میرے رب کی جانب سے، پھر جب آجائے گا میرے رب کے وعدے کا وقت تو وہ اس سب کو پاش پاش کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ بہرحال برحق ہے1
141 ذوالقرنین کا جذبہ شکر و تواضع : سو اتنی بڑی اور اس قدر عظیم الشان دیوار بنانے پر تنگ ظرف لوگوں کی طرح ذو القرنین نے اپنے لیے کسی طرح کی تعلّی یا کسی عجب و غرور اور بڑائی کا کوئی اظہار نہیں کیا بلکہ اپنی عاجزی و فروتنی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اپنے رب کی رحمت و عنایت قرار دیا۔ چناچہ ذو القرنین نے کہا کہ " یہ میرے رب کی رحمت ہے "۔ جو اس نے میرے ذریعے اپنے بندوں پر فرمائی ہے۔ اور وہ یاجوج ماجوج کی لوٹ مار سے محفوظ ہوگئے۔ اور اس طرح ذوالقرنین نے اپنے قول وقرار اور اپنی للہیت کا ایک اور ثبوت فراہم کردیا۔ سو اس میں انہوں نے نہ کسی تعلّی کا اظہار کیا اور نہ ہی کسی طرح کی بڑائی کا کوئی دعویٰ کیا۔ بلکہ کہا تو یہ کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کا نتیجہ و ثمر ہے جو اس نے محض اپنے کرم سے اپنے بندوں پر فرمائی ہے۔ اور یہی نشانی ہوتی ہے اللہ کے مخلص بندوں کی کہ وہ جو بھی کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کیلئے کرتے ہیں۔ اور ہر خوبی کو اسی کی رحمت و عنایت سمجھتے ہیں۔ اور یہی چیز بندے کی شان عبدیت و بندگی کے لائق ہے۔ اور اسی میں اس کا بھلا اور فائدہ ہے دنیا و آخرت میں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ سو ذو القرنین نے اس دیوار کی تعمیر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا کہ یہ کرشمہ میرے ہاتھوں ظہور پذیر ہو اور ایسی عظیم الشان آہنی دیوار کھڑی ہوگئی جس پر چڑھنا یا اس میں نقب لگانا یاجوج ماجوج کے لیے ممکن نہیں رہا ۔ فالحمد للہ جل وعلا بکل حال من الاحوال - 142 سدِّ سکندری کے فنا وزوال کا ذکر : سو ذو القرنین نے عجز و انکسار کے ساتھ کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اور اس کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ یہ عظیم الشان دیوار بن گئی لیکن یہ ابدی نہیں۔ بلکہ " جب آپہنچے گا میرے رب کے وعدے کا وہ وقت "۔ جو اس نے اس دیوار کے خاتمے اور یاجوج ماجوج کے خروج سے متعلق فرما رکھا ہے اور جس کا علم اسی کو ہے۔ (معارف، خازن، مراغی، جامع اور محاسن وغیرہ) ۔ تو اس وقت وہ اس دیوار کو پاش پاش کر دے گا کہ میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔ اور اس نے بہرحال پورا ہو کر رہنا ہے۔ سو یہ دیوار ہمیشہ کے لیے ایسی ناقابل شکست نہیں رہے گی بلکہ اس کی یہ شان ایک وقت تک کے لیے ہے۔ کیونکہ ذوالقرنین نے جب یہ کہا کہ میرے رب کا وعدئہ حق پورا ہو کر رہے گا اور جب اس کے وعدے کا وہ مقرر وقت آجائے گا تو اللہ اس سب کو پاش پاش کر دے گا۔ اور یہ تمام اونچ نیچ ختم ہوجائے گی۔ یہ سب بلندیاں پست اور یہ تمام تعمیرات مسمار ہوجائیں گی۔ سو اس سے ذکر قیامت کی مناسبت پیدا ہوگئی۔ تو اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و عنایت سے سرگشتگان دنیا کی تنبیہ و تذکیر کے لیے یہ ارشاد فرمایا اور اس طرح انذار کا وہی مضمون جو اس سورة کریمہ کے شروع میں ارشاد فرمایا گیا تھا ایک نئے اسلوب کے ساتھ پھر سامنے آگیا جو کہ نظم قرآنی کا ایک معروف اسلوب ہے ۔ والحمد للہ ۔ یہاں تک ذوالقرنین کا قصہ پورا ہوگیا۔ اب آگے قیامت کے احوال کا ذکر شروع ہوتا ہے۔
Top