Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 99
وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَئِذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًاۙ
وَتَرَكْنَا : اور ہم چھوڑ دیں گے بَعْضَهُمْ : ان کے بعض يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّمُوْجُ : ریلا مارتے فِيْ بَعْضٍ : بعض (دوسرے) کے اندر وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ : اور پھونکا جائے گا صور فَجَمَعْنٰهُمْ : پھر ہم انہیں جمع کرینگے جَمْعًا : سب کو
اور اس روز ہم ان کو اس حال میں چھوڑ دیں گے کہ وہ سمندر کی موجوں کی طرح ایک دوسرے میں موجیں مار رہے ہوں گے اور پھونک مار دی جائے گی صور میں، پھر اکٹھا کر لائیں گے ہم ان سب کو چن چن کر
143 فتنہ یاجوج و ماجوج کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم ان کو اس دن اس طرح چھوڑ دیں گے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے میں موجیں مار رہے ہوں گے "۔ اپنی خوفناک کثرت کی بناء پر۔ جس کی تفصیلات احادیث و روایات میں مذکور و موجود ہیں۔ سو اس کا پورا ظہور تو قرب قیامت کے موقع پر ہی ہوگا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { حَتّٰی اِذَا فُتِحَتْ یَاجُوْجُ وَ مَاجُوْجُ وَہُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ } ۔ ( الانبیائ : 96) ۔ مگر اس سے پہلے جو مختلف فتنے مختلف ادوار میں ظاہر ہوتے رہے ان کو ان کا نمونہ قرار دیا جائے تو یہ کچھ بعید نہیں۔ جیسا کہ کچھ مفسرین کرام نے ان وحشی اور جنگجو قوموں اور قبائل کے بارے میں کہا ہے جو کہ کاکیشیا اور قفقاز وغیرہ کے دور دراز علاقوں میں رہتے تھے۔ اور وہ درہ عمر داریال سے نکل کر حملہ آور ہوتے تھے اور میدانی علاقوں میں آ کر لوٹ مار مچایا کرتے تھے۔ جس سے وہاں کے لوگ بہت تنگ اور سخت پریشان تھے۔ تو ذوالقرنین نے وہاں دیوار بنا کر ان کا راستہ بند کردیا تھا۔ (روح المعانی ج 16 ص 36، فتح الباری ج 6 ص 297 وغیرہ) ۔ یہاں تک کہ ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں چنگیز خان ان بلند وبالا پہاڑیوں سے اپنے جرار لشکروں کے ساتھ نکل آیا تو اس نے ایک طرف توشمالی چین پر قبضہ جما لیا اور دوسری طرف اسلامی ممالک کو تاخت و تاراج کرنا شروع کردیا۔ سب سے پہلے تو اس نے شاہ خوارزم کو زیر کیا اور اس کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی کہ وہی دراصل چنگیز خان کے اس غیظ و غضب کو بھڑکانے کا باعث بنا تھا۔ کیونکہ مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس نے چنگیز خان کے کچھ آدمیوں کو قتل کر کے ان کا مال و اسباب ان سے چھین لیا تھا اور ان کے کچھ علاقے پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ جس پر چنگیز خان نے غصے سے بپھر کر شاہ خوارزم کو لکھا کہ تم کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ تم میرے آدمیوں پر ہاتھ اٹھاؤ اور ان کا مال و متاع لوٹو۔ کیا تم سوئے ہوئے فتنے کو جگانا چاہتے ہو ؟ اور چھپے ہوئے شرور کو ہوا دینا چاہتے ہو ؟ تم اپنے پیغمبر کی اس ہدایت کو بھول گئے ہو کہ تم اپنے مالداروں کو بےوقوفی سے روکو اور اپنے غلط کاروں کو کمزوروں پر ظلم کرنے سے باز رکھو۔ اور کیا تمہیں اپنے رہبر کی یہ نصیحت نہیں پہنچی کہ ترکوں سے اس وقت تک نہیں جھگڑنا جب تک کہ وہ تم سے نہ جھگڑیں۔ تم کیسے لوگ ہو کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ برا سلوک کرتے ہو جبکہ تمہارے پیغمبر نے تمہیں اس سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے ؟ خبردار ! جو فتنہ سویا ہوا ہے اس کو مت جگاؤ۔ میری ان نصیحتوں کو کان کھول کر سن لو اور ان کو اچھی طرح یا دکر لو اور نقصان کی تلافی کرلو قبل اس سے کہ انتقام کا داعی تم پر کود پڑے۔ یاجوج ماجوج کو روکنے والی دیوار کھول دی جائے اور وہ تم پر ہر بلندو پست سے امڈ آئیں۔ (المراغی، المحاسن وغیرہ) ۔ آخر کار ساتویں صدی ہجری کے وسط تک وہ بغداد تک پہنچ گیا جو کہ اسلامی حکومت کا دارالخلافہ تھا اور دور حکومت اس وقت المستعصم باللہ کا تھا۔ اس دوران تاتاریوں نے وہ وہ مظالم ڈھائے کہ تاریخ میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سات دن تک انہوں نے بلا روک ٹوک بےتحاشا لوٹ مار مچائی اور خونریزی کی۔ کتابوں کے ذخائر کو دریا میں ڈال کر ان کا پل بنایا جس کے اوپر سے وہ اپنے گھوڑوں سمیت گزرتے تھے اور جن کی سیاہی سے دریا کا پانی کئی دنوں تک رنگین رہا۔ اور اس طرح صدیوں سے قائم عباسی حکومت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا۔ صحیح بخاری و مسلم و غیر کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت زینب بنت حجش ؓ سے مروی ہے کہ ایک روز آنحضرت ﷺ سخت گھبراہٹ کے عالم میں تشریف لائے اور فرمایا " لَا الہَ اِلَاِ اللّٰہ بڑی خرابی ہے عربوں کے لئے اس بڑے اور ہولناک شر سے جو قریب آ لگا ہے " اور پھر اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے حلقہ بنا کر اشارہ فرمایا کہ یاجوج ماجوج کو روکنے والی دیوار میں اس قدر شگاف پڑچکا ہے۔ حضرت زینب ؓ نے عرض کیا کہ حضرت ! کیا ہم اس حالت میں بھی ہلاک کر دئے جائیں گے جبکہ ہمارے درمیان نیک لوگ موجود ہوں گے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ جبکہ خباثت ۔ اور شر۔ زیادہ ہوجائے گا۔ سو جیسا کہ اوپر گزرا کہ اس طرح کے فتنوں اور شر انگیزیوں کو یاجوج ماجوج کے فتنے کا ایک نمونہ یا پیش خیمہ تو کہا جاسکتا ہے مگر یاجوج ماجوج کا وہ بڑا فتنہ جو دنیا کی ایک بڑی آبادی کو تہس نہس کر دے گا اور جس کا تفصیلی ذکر مختلف احادیث میں آیا ہے وہ قرب قیامت ہی میں ظاہر ہوگا۔ جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر 140 میں تفصیل سے گزرا۔ اور آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب کہ سدِّ سکندری میں اس قدر سوراخ ہوچکا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کمزور ہوگئی یا ٹوٹنے کے قریب ہوگئی۔ یا یہ کہ اس میں سے کچھ قبائل یاجوج ماجوج وغیرہ کے نکل کر اس طرف آگئے۔ جیسا کہ تاتاری فتنہ وغیرہ ۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ ہُ سبحانہ وتعالی ۔ وَہُوَ اَعْلَمْ بأسْرَارِکَلَامِہٖ جَلَّ وَعَلَا - 144 نفخ صور اور حشر کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اس روز صور میں پھونک دیا جائے گا پھر ہم اکٹھا کرلائیں گے ان سب کو چن چن کر "۔ اور اس طور پر کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو اس حشر و اجتماع سے بچ سکے یا کہیں مخفی رہ سکے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَری الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَّحَشَرْنَاہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا } ۔ (الکہف :47) ۔ سو کوئی مانے یا نہ مانے، ایمان لائے یا نہ لائے، حق اور حقیقت بہرکیف یہی اور صرف یہی ہے کہ سب کو اس روز اکٹھا کر کے میدان حشر میں لایا جائے گا تاکہ ہر کوئی اپنی زندگی بھر کے کئے کرائے کا بھرپور صلہ وبدلہ پا سکے۔ اسی لئے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی طرف سے دوسرے مقام پر اس حقیقت کے اعلان وبیان کا ذکر اس طرح تاکیدی طور پر فرمایا جاتا ہے ۔ { قُلْ اِنَّ الاَوَّلِیْنَ وَالاٰخَرِیْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ اِلٰی مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ } ۔ (الواقعۃ : 49 -50) ۔ یعنی " کہو ان سے اے پیغمبر کہ یقینا اگلوں پچھلوں سب کو اکٹھا کرکے لایا جائے گا ایک مقرر دن کے وقت پر "۔ سو کس قدر محروم اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اس یوم عظیم سے غافل ہو کر اپنی متاع زندگی کی محدود فرصت کو اس کی تیاری میں صرف کرنے کی بجائے یونہی ضائع کر رہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز ان سب کو میدان حشر میں اکٹھا کر کے لایا جائے گا اور { جمعا } کی تاکید سے اس حقیقت کو ظاہر فرما دیا گیا کہ صور قیامت سب کو جمع کرلے گا۔ چھوٹے اور بڑے عابد اور معبود اور حاضر و غائب سب اس روز یکجا ہوں گے۔ کوئی بھی بچ نہ سکے گا۔ سب کو پکڑ کر لایا جائے گا اور حضرت ابن عباس اور ابوسعید سے مرفوعا مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں کیسے چین سے بیٹھوں جبکہ صاحب قرن یعنی صور والے نے اپنے قرن یعنی صور کو اپنے منہ میں لے کر اپنی پیشانی جھکا رکھی ہے اور اپنے کان اللہ کے حکم کی طرف لگا رکھے ہیں کہ کب اللہ کا حکم ملتا ہے تاکہ صور پھونک دوں۔ صحابہ نے عرض کیا ایسے میں ہمیں کیا کہنا چاہیے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم یوں کہا کرو " حسبنا اللہ و نعم الوکیل علی اللہ توکلنا " (ابن کثیر) باقی نفخ صور وغیرہ جیسے امور ان غیبیات اور متشابہات میں سے ہیں جنکی اصل حقیقت کا اس جہان رنگ و بو میں سمجھنا ہمارے بس میں نہیں۔ ہمیں تو ایسے تمام حقائق پر اسی طرح ایمان رکھنا چاہیے جس طرح ان کا ذکر کتاب و سنت میں ہوا ہے اور بس۔ ان کی اصل حقیقت اللہ ہی جانے یا جس کو وہ بتائے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top