Tafseer-e-Madani - Maryam : 11
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پاس قَوْمِهٖ : اپنی قوم مِنَ : سے الْمِحْرَابِ : محراب فَاَوْحٰٓى : تو اس نے اشارہ کیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَنْ سَبِّحُوْا : کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
چناچہ وہ اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے، تو انھیں اشارے سے کہا کہ تم لوگ تسبیح کرو اپنے رب کی صبح و شام،
12 محراب زکریا سے مراد حجرئہ عبادت : یعنی محراب کے لفظ سے یہاں پر وہ معروف محراب مراد نہیں جو کہ آج کل ہماری مسجدوں میں بالعموم پائے جاتے ہیں کہ یہ محراب تو اسلام میں بھی بہت بعد بنو امیہ کے دور میں شروع کئے گئے۔ بلکہ اس سے مراد وہ خاص کمرے اور عبادت خانے ہیں جو کہ مسجد اقصیٰ کے آس پاس موجود ہوا کرتے تھے۔ جن میں عبادت گزار لوگ رہا کرتے تھے۔ جیسا کہ آج بھی حرم مکی کے اردا گرد ایسے بہت سے کمرے موجود ہیں جن کو وہاں عام طور پرخلوے کہا جاتا ہے۔ جو کہ عبادت گزار حضرات کے رہنے سہنے کے لئے مخصوص ہیں۔ سو حضرت زکریا اسی قسم کے کسی حجرے سے باہر تشریف لائے تھے جہاں آپ قیام پذیر تھے۔ ورنہ محراب کا جو معنیٰ و مفہوم ہمارے دور اور ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے، اس کے اعتبار سے وہاں رہنے، ٹھہرنے اور وہاں سے نکل آنے کے کوئی معنیٰ ہی نہیں بن سکتے۔ اور اسی خاص عبادت خانے کو مصلّیٰ بھی کہا جاتا تھا۔ کہ اسی میں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور اسی کو " غرفہ " اور " مقصورہ " بھی کہا جاتا تھا۔ اور اہل کتاب کے یہاں اس کو " مذبح " بھی کہا جاتا تھا۔ (المراغی، المحاسن وغیرہ) ۔ بہرکیف حضرت زکریا پر یہ کیفیت طاری ہوئی تو وہ محراب عبادت سے نکل کر باہر آئے تو لوگوں سے کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ صرف اشارے سے لوگوں کو تسبیح و تہلیل میں مشغول رہنے کی ہدایت فرمائی۔
Top