Tafseer-e-Madani - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور اس کتاب میں ان کو مریم (علیہا السلام) کا قصہ بھی پڑھ کر سنا دو ، جب کہ وہ اپنے گھر والوں سے علیحدہ ہو کر مشرقی جانب کی ایک جگہ میں جا بیٹھیں –ف 1
21 قصہ مریم و عیسیٰ کے ذکر کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا " اور اس کتاب میں مریم کا قصہ بھی سناؤ "۔ کہ اس میں بھی بڑے درس ہائے عبرت و بصیرت پنہاں ہیں۔ وہ عمران کی بیٹی اور داؤد کی نسل میں سے تھیں۔ بنی اسرائیل کے ایک پاکیزہ گھرانے میں انہوں نے جنم لیا۔ عام روایت کے خلاف لڑکی ہونے کے باوجود ان کو بیت المقدس کی خدمت اور عبادت کے لئے قبول کرلیا گیا اور عیسیٰ جیسے عظیم الشان بیٹے نے بغیر باپ کے ان کے یہاں جنم لیا۔ پھر یہود بےبہود کی بہتان طرازی سے معجزانہ طور پر آپ کی براءت کا قدرت کی طرف سے انتظام فرمایا گیا اور گود کے بچے نے معجزانہ طور پر آپ کی طہارت و پاکیزگی کیلئے بےمثال کلام کیا وغیرہ وغیرہ۔ " الکتاب " سے یہاں پر مراد قرآن حکیم ہے۔ جیسا کہ ظاہر و متبادر ہے۔ اور جمہور مفسرین کرام نے اسی کا ذکر کیا ہے۔ ( المراغی، المحاسن، المدارک اور المعارف وغیرہ ) ۔ مگر اس سب کے باوجود بعض نے کہا کہ یہاں پر " الکتاب " سے مراد " اناجیل اربعہ " ہیں۔ بہرکیف یہاں پر ان کے ذکر کا حکم وارشاد فرمایا گیا کہ اس میں بھی بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 22 حضرت مریم کی اپنے گھر والوں سے علیحدگی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا " جبکہ وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرقی جانب جابیٹھیں "۔ یعنی بیت المقدس کی مشرقی جانب میں اپنے رب کی عبادت و بندگی کے لئے۔ (مراغی، صفوہ، ابن کثیر وغیرہ) ۔ اور اسی بناء پر نصاریٰ نے اس مشرقی جانب کو اپنا قبلہ قرار دیا۔ یعنی حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی وجہ سے۔ چناچہ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ اس بات کو جانتا ہوں کہ عیسائیوں نے بیت المقدس کی مشرقی جانب کو اپنا قبلہ کیوں قرار دیا۔ پھر آپ ؓ نے یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کی جائے ولادت کو اپنا قبلہ قرار دیا۔ (ابن کثیر اور مراغی وغیرہ) ۔
Top