Tafseer-e-Madani - Maryam : 25
وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا٘
وَهُزِّيْٓ : اور ہلا اِلَيْكِ : اپنی طرف بِجِذْعِ : تنے کو النَّخْلَةِ : کھجور تُسٰقِطْ : جھڑ پڑیں گی عَلَيْكِ : تجھ پر رُطَبًا : تازہ تازہ جَنِيًّا : کھجوریں
اور ہلاؤ تم اپنی طرف کھجور کے اس تنے کو، یہ گرائے گا تم پر تروتازہ کھجوریں،
31 رحمت خداوندی سے سرفرازی کے لیے بہانے کی ضرورت : سو رحمت خداوندی سے سرفرازی کے لیے حیلے اور بہانے کی تعلیم کے طور پر ارشاد فرمایا گیا " اور ہلاؤ اپنی طرف کھجور کے اس تنے کو "۔ تاکہ اس طرح آپ کی اپنی محنت کا بھی اس نعمت کے حصول میں کچھ دخل ہو سکے اور کسب ید کی فضیلت بھی واضح ہوجائے۔ سو اس سے یہ درس ملا کہ اسباب کی اس دنیا میں انسان کو اپنے مقدور کی حد تک اسباب اختیار کرنے چاہئیں۔ اسی لئے حضرت مریم کو درخت کا تنا ہلانے کا حکم و ارشاد فرمایا گیا۔ ورنہ جو ذات خشک تنے سے تازہ کھجوریں عطا فرما سکتی ہے۔ وہ اس کو ہلائے بغیر کیوں نہیں دے سکتی۔ مگر اس میں کسب و محنت اور اسباب کو اپنانے کا درس دیا گیا ہے۔ نیز اس میں یہ ارشاد بھی ہے کہ جو ذات اقدس خشک درخت سے بغیر موسم کے تازہ کھجوریں عطا فرما سکتی ہے وہ تم کو اے مریم ! بغیرمسِّ بشر کے بچہ کی نعمت سے بھی سرفراز فرما سکتی ہے۔ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ دینا اور نوازنا اور ہر طرح کی اور ہر قسم کی دین اور نوازش اسی وحدہ لاشریک کی شان اور اسی کا کام ہے۔ پس مومن صادق کو چاہیئے کہ وہ ہمیشہ اسی سے مانگے اور اپنا بھروسہ اور اعتماد اسی پر اور صرف اسی پر رکھے ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس مختصر سے ارشاد سے ایک طرف تو یہ درس ملتا ہے کہ بندے کو اپنے قلب و باطن اور نہاں وعیاں کا تعلق اپنے خالق ومالک سے صحیح رکھنا چاہیے تاکہ اس کی عنایات سے سرفراز ہوتا رہے کہ اس کی رحمت و عنایت سے سرفرازی کے لیے بس حیلے اور بہانے کی ضرورت رہتی ہے۔ اور دوسری طرف یہ کہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے جہاں تک ہو سکے اپنے ہاتھ پاؤں مارنے چاہئیں اور اپنی طرف سے حرکت کرنی چاہیے کہ حرکت میں برکت ہے۔ اور تیسری طرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت ہمیشہ اور ہر وقت جاری وساری ہے۔ وہ اسباب و مسببات کی پابند نہیں ہے۔ اس کی قدرت سب پر حاوی ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔
Top