Tafseer-e-Madani - Maryam : 28
یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّاۖۚ
يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ : اے ہارون کی بہن مَا : نہ كَانَ : تھا اَبُوْكِ : تیرا باپ امْرَاَ : آدمی سَوْءٍ : برا وَّ : اور مَا كَانَتْ : نہ تھی اُمُّكِ : تیری ماں بَغِيًّا : بدکار
اے ہارون کی بہن، نہ تو تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں کوئی بدکار عورت تھی
35 ہارون کی بہن کا مطلب ؟ : اس سے مراد وہ ہارون (علیہ السلام) نہیں جو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی تھے کہ وہ تو اس سے صدیاں پہلے گزر چکے تھے۔ بلکہ اس سے مراد حضرت مریم (علیہا السلام) کے وہ بھائی تھے جن کا نام ہارون تھا اور جو بڑے عابد و زاہد اور نیک و صالح شخص تھے اور جن کا زہد وتقویٰ ضرب المثل تھا۔ اور بنی اسرائیل میں اپنے نبیوں کے ناموں پر نام رکھنے کا رواج موجود تھا۔ جیسا کہ ہمارے یہاں بھی موجود ہے کہ لوگ پیغمبروں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں مثلاً محمد، احمد، مصطفی، یعقوب، یوسف، ابراہیم وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح وہاں بھی تھا۔ اور اگر یہاں ہارون (علیہ السلام) سے مراد وہی ہارون لئے جائیں جو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی تھے تو یہ بھی درست ہوسکتا ہے۔ اور اس صورت میں حضرت مریم (علیہا السلام) کو ان کی بہن کہنا عربوں کے اس معروف دستور و رواج کے مطابق ہوگا کہ وہ نسبت کے لئے اس طرح کی اضافتوں کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اور آج بھی کرتے ہیں۔ مثلاً " تمیمی " کو " اخاتمیم " اور " ہمدانی " کو " اخا ھمدان " اور اسی طرح " اخا العرب " اور " اخا الانصار " وغیرہ کہتے تھے اور کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور جیسا کہ خود قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ۔ { وَاذْکُرْ اَخَا عَادٍ } ۔ وغیرہ۔ بہرکیف ان لوگوں نے حضرت مریم کی نسبت حضرت ہارون کی طرف کرکے ان کی سرزنش کو اور بھی سخت کردیا کہ اتنے بڑے نیک اور پاکیزہ بھائی کی بہن ہونے اور اس قدر پاکیزہ نسبت رکھنے کے باوجود تم نے یہ حرکت کیسے کی ؟ حضرت مریم کے والد ماجد کا نام عمران تھا جو مسجد اقصیٰ کے امام تھے۔ اور وہ بڑے عابد و زاہد انسان تھے۔ اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام " حنہ بنت قاقوذا " تھا۔ ( معارف وغیرہ) ۔ بہرکیف اس طرح ان لوگوں نے حضرت مریم صدیقہ کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا۔
Top