Tafseer-e-Madani - Maryam : 3
اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا
اِذْ : جب نَادٰى : اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب نِدَآءً : پکارنا خَفِيًّا : آہستہ سے
جب کہ اس نے پکارا اپنے رب کو چپکے سے
1 آداب دعا میں سے ایک اہم ادب اخفائ : سو یہ دعا کے آداب میں سے ایک اہم ادب ہے کہ دعا آہستہ اور چپکے چپکے سے کی جائے۔ کیونکہ اول تو انسان جس ذات اقدس و اعلیٰ کے حضور اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے اس کے یہاں سرّ و اخفا سب برابر ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور دوسرے اس لئے کہ آہستہ آہستہ اور چپکے چپکے دعاء کرنا اخلاص کے بھی زیادہ قریب ہے اور ریاء و نمود سے بھی محفوظ تر ہے۔ اسی لئے رب تعالیٰ نے اپنے کلام حکیم میں ہمیں اس طرح صریح طور پر اس کا حکم دیا ہے ۔ { اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً } ۔ (الاعراف :55) یعنی " تم اپنے رب کو پکارو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے سے "۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { تَدْعُوْنَہُ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً } ۔ (الانعام :63) ۔ اس لئے اصل دعاء میں یہی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ ہو۔ ہاں اگر بعض دوسرے امور پیش نظر ہوں تو اونچی آواز سے دعاء کرنا بھی درست ہے۔ جیسا کہ اگر دوسروں کو سکھانا اور تعلیم دینا مقصود ہو یا اس لئے اونچی آواز سے دعاء کی جائے کہ دوسرے اس پر آمین کہہ سکیں۔ سو اس طرح کے کسی مقصد کے لئے بلند آواز سے دعاء کرنا بھی اگرچہ جائز ہے لیکن اصل اور افضل یہی ہے کہ دعاء آہستہ عاجزانہ اور پست آواز سے ہو۔ جیسا کہ نصوص کتاب و سنت سے ثابت ہے اور حضرات علمائے کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ (روح، قرطبی، بیضاوی، مراغی، ابن کثیر اور صفوہ وغیرہ) ۔ اور الحمد للہ راقم آثم نے اپنی کتاب " تحفہ علم و حکمت " اور دوسری کتاب " مقدس دعائیں " میں دعاء سے متعلق اس کے آداب کے بارے میں اور اس کے علاوہ دیگر تمام ضروری اور اہم آداب کے بارے میں بھی کافی سے زیادہ اہم اور ضروری معلومات جمع کردی ہیں۔ اور یہ دونوں کتابیں کوئی بیس بائیس سال قبل سے چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں اور کئی ہزار کی تعداد میں تقسیم ہوچکی ہیں ۔ والحمد للہ ۔ اللہ تعالیٰ محض اپنی شان کریمی سے قبول فرما کر ان کو دنیا کے لیے نفع و فائدہ کا ذریعہ اور راقم آثم اور راقم آثم کے جملہ متعلقین کے لیے قیامت تک باقی رہنے والا صدقہ جاریہ بنا دے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین -
Top