Tafseer-e-Madani - Maryam : 30
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ
قَالَ : بچہ نے اِنِّىْ : بیشک میں عَبْدُ اللّٰهِ : اللہ کا بندہ اٰتٰىنِيَ : اس نے مجھے دی ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے نَبِيًّا : نبی
اتنے میں وہ معصوم بچہ خود بول اٹھا کہ بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب بخشی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے
36 حضرت مریم کا اپنی قوم کو جواب اشارے سے : سو اس سب کے جواب میں حضرت مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کردیا اور بس۔ جس سے وہ لوگ اور بھڑک اٹھے کہ کیا اس طرح تم ہمارا مذاق اڑانا چاہتی ہو جو ہماری بات کا صاف اور سیدھا جواب دینے کی بجائے ہمیں اس بچے کے حوالے کرتی ہو ؟ جو گہوارے میں پڑا ہے اور بولنے کے قابل بھی نہیں۔ بھلا اس سے ہم کس طرح کوئی بات کرسکتے ہیں ؟ مگر حضرت مریم نے چونکہ خاموشی کا روزہ رکھا ہوا تھا اس لیے آپ نے ان لوگوں سے زبانی کلامی کوئی بات کرنے کی بجائے اس نومولود کی طرف اشارہ کردیا کہ ان تمام تہمتوں اور سب الزامات کا جواب یہ بچہ خود دے گا۔ اسی سے پوچھو۔ مجھے اس بارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس پر وہ لوگ اور بڑبڑائے کہ اس بچے سے ہم کس طرح بات کریں جو کہ ابھی گود میں ہے۔ 37 حضرت عیسیٰ کا ماں کی گود میں معجزانہ کلام : سو اس پر عیسیٰ نے کہا " بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں "۔ سو اس سے آنجناب نے تصریح فرما دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ نہ کہ خدا یا خدا کا بیٹا۔ جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں۔ اور نہ ولدالزنا۔ جیسا کہ یہود بےبہبود بہتان باندھتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس طرح اس بچے نے معجزانہ طور پر بولنے کے علاوہ بات بھی ایسی کہی کہ اپنی براءت و نزاہت اور اپنی والدہ ماجدہ کی پاکیزگی اور پاکدامنی بھی واضح کردی اور ساتھ ہی ساتھ یہود و نصاریٰ کے دونوں گروہوں کے گمراہوں کی ٹھوس تردید کردی۔ اور ایسی کہ آئندہ کے لیے تمام فتنوں کا دروازہ بند کردیا۔ سو اس طرح اس معصوم اور بےمثال و پاکیزہ بچے نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و عنایت سے ایسا عمدہ اور فیصلہ کن کلام کر کے ایک طرف تو حق اور حقیقت کو ہمیشہ کے لیے اور پوری طرح واضح کردیا اور اپنے بارے میں آئندہ ہونے والے تمام فتنوں کے دروازے بند کردیے۔ اور دوسری طرف اپنی والدہ ماجدہ مریم قدیسہ کی نزاکت و پاک دامنی اور عزت و عظمت کو چار چاند لگا دیے۔ 38 کتاب و نبوت سے سرفرازی کا اظہار و اعلان : سو اس بچے نے مزید کہا کہ " اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبوت سے بھی سرفراز فرما دیا ہے "۔ یعنی انجیل جو کہ بعد میں عطا فرمائی جائے گی۔ مگر اس امر کے یقینی ہونے کے باعث اور اس کے تحقق وقوع کی بناء پر اس کو فعل ماضی سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ (صفوۃ البیان، المراغی اور المعارف وغیرہ) ۔ اور یہی بات نبوت کے بارے میں بھی ہے کہ آپ کی نبوت سے سرفرازی بھی طے ہوچکی ہے جو بعد میں ملے گی۔ جبکہ میں اس کی عمر کو پہنچ جاؤنگا۔ لیکن اس کا فیصلہ چونکہ ہوچکا ہے اور یہ ایک طے شدہ اور قطعی امر ہے اس لیے اس کو بھی ماضی کے صیغے سے تعبیر فرمایا۔ یعنی مجھے اللہ نے نبی بنایا۔ یعنی یہ معاملہ طے ہوگیا۔
Top