Tafseer-e-Madani - Maryam : 48
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ١ۖ٘ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا
وَاَعْتَزِلُكُمْ : اور کنارہ کشی کرتا ہوں تم سے وَمَا : اور جو تَدْعُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ وَاَدْعُوْا : اور میں عبادت کروں گا رَبِّيْ : اپنا رب عَسٰٓى : امید ہے اَلَّآ اَكُوْنَ : کہ نہ رہوں گا بِدُعَآءِ : عبادت سے رَبِّيْ : اپنا رب شَقِيًّا : محروم
اور میں آپ لوگوں سے بھی کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور ان سب چیزوں سے بھی جن کو تم لوگ پوجتے پکارتے ہو اللہ کے سوا، اور میں تو بہرحال اپنے رب کو ہی پکارتا رہوں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر کبھی محروم نہیں رہوں گا،2
58 حضرت ابراہیم کی دردمندی اور دلسوزی کا ایک اور مظہر : سو یہاں سے حضرت ابراہیم کی دردمندی اور دلسوزی کا ایک اور مظہر سامنے آتا ہے کہ آپ نے علیحدگی کے اس موقعہ پر باپ سے کہا " اور میں آپ کیلئے اپنے رب سے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا " کہ وہ آپ کو ہدایت و ایمان کی دولت سے سرفراز فرما دے تاکہ آپ کی بخشش کا سامان ہو سکے۔ لیکن جب آپ (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ اب اس شخص کو ایمان ملنے والا نہیں تو آپ نے اس وعدہ سے اظہار و اعلان براءت فرما دیا۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا ۔ { وَمَاکَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہُ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّأ مِنْہُ } ۔ کیونکہ جو کفر و شرک پر مرجائے اس کے لیے بخشش کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ کیونکہ مرنے کے بعد اس کیلئے ایمان سے مشرف ہونے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہ سکتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو باپ کے اس قدر سنگدلانہ رویے کے باوجود حضرت ابراہیم کا اس کے لیے دعائے مغفرت کا وعدہ کرنا آنجناب کی انتہائی دردمندی، دلسوزی اور رقت قلبی کا ایک اور عظیم الشان نمونہ و مظہر ہے۔ لیکن اس دردمندی و دلسوزی کے ساتھ ساتھ حق و ہدایت کی غیرت و حمیت کا جو تقاضا تھا آپ نے اس میں بھی کوئی فرق نہ آنے دیا اور مروت یا خوف سے مغلوب و متاثر ہو کر اپنی دعوت توحید میں کسی طرح کی کسی لچک یا مداہنت کو گوارا نہ کیا بلکہ اس موقعہ پر اس بارے صاف اور صریح طور پر اعلان کردیا کہ میں آپ لوگوں سے بھی علیحدہ ہوتا ہوں اور آپ کے ان خود ساختہ معبودان باطلہ سے بھی جن کی پوجا پاٹ تم لوگ اللہ کے سوا کرتے ہو۔ 59 مشرکوں اور ان کے من گھڑت معبودوں سے علیحدگی کا اعلان : سو اس سے مشرکوں اور ان کے من گھڑت معبودوں سب سے علیحدگی و بیزاری کے اظہار و اعلان کا درس ملتا ہے۔ سو حضرت ابراہیم نے اپنی مشرک قوم اور ان کے خودساختہ معبودوں سب سے علیحدگی اور کنارہ کشی کا اعلان کردیا اور کہا " میں تم سے بھی علیحدہ ہوتا ہوں اور تمہارے ان خودساختہ معبودوں سے بھی جن کو تم لوگ پوچتے پکارتے ہو " اپنا حاجت روا و مشکل کشا جان کر۔ سو میں ان سب سے الگ ہو کر ایک اللہ ہی کی عبادت و بندگی کرتا رہوں گا جو کہ سب کا خالق ومالک اور معبود برحق ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ جو اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں حاکم و متصرف ہے۔ اور وہ ایسا یکتا ہے کہ نہ اس کی صفت خلق و ایجاد میں کوئی اس کا شریک وسہیم ہے اور نہ ہی اس کی صفت امر و ارشاد میں۔ وہ ہر اعتبار سے اور ہر لحاظ سے وحدہ لاشریک ہے۔ پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہ لاشریک کا حق اور اسی کی شان اختصاص و امتیاز ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے ساتھ تمام تر ہمدردی اور دلسوزی کے باوجود اپنے پیغام حق و ہدایت سے متعلق اپنے موقف میں ذرہ برابر کسی لچک یا مداہنت کو گوارا نہیں فرمایا۔ اور ان لوگوں کے رو در رو اور صاف اور صریح طور پر یہ اعلان فرما دیا کہ میں تم سب سے بھی بری و بیزار ہوں اور تمہارے ان تمام خود ساختہ معبودان باطلہ سے بھی جن کو تم لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجتے پکارتے ہو۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ میں اپنے رب کو پکار کر کبھی محروم نہیں رہوں گا۔ اور اس طرح آپ نے صرف آزر ہی سے نہیں بلکہ اس کے تمام حواریوں ہمنواؤں اور اس کے پورے خاندان سے بھی اعلان براءت کردیا اور ان کے ساتھ انکے خود ساختہ مبعودوں کو بھی لات مار دی ۔ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام -
Top