Tafseer-e-Madani - Maryam : 4
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں وَهَنَ : کمزور ہوگئی الْعَظْمُ : ہڈیاں مِنِّيْ : میری وَاشْتَعَلَ : اور شعلہ مارنے لگا الرَّاْسُ : سر شَيْبًا : سفید بال وَّ : اور لَمْ اَكُنْ : میں نہیں رہا بِدُعَآئِكَ : تجھ سے مانگ کر رَبِّ : اے میرے رب شَقِيًّا : محروم
اور عرض کیا اے میرے پروردگار میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور بڑھاپے سے میرا سر بھڑک اٹھا ہے۔ اور میں کبھی آپ سے دعا مانگنے میں نامراد و ناکام نہیں ہواف 3
2 اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ رحمت ہی کی امید رکھنے کا درس : سو حضرت زکریا نے رب سے عرض کیا " اور میں کبھی آپ سے دعا مانگنے میں نامراد نہیں ہوا "۔ بلکہ ہمیشہ تیرے لطف و کرم سے سرفراز ہوا۔ اس لئے میں قوی امید رکھتا ہوں کہ اب بھی تو اے میرے مالک مجھے محروم نہیں فرمائے گا۔ سو اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اللہ پاک کے حضور دعاء قوی امید و یقین کے ساتھ کرنا چاہیئے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایا گیا ۔ " اُدْعُوا اللّٰہَ وَاَنْتُمُ مُّوْقِنُوْنَ بالْاِجَابَۃِ " ۔ کہ تم اللہ کو اس طرح پکارا کرو کہ تمہیں دعاء کی قبولیت کا پورا یقین ہوا کرے۔ سو اس میں رب کی رحمت کے بارے میں ہمیشہ پرامید رہنے کا درس عظیم ہے۔ اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ دعاء میں اللہ پاک کی سابقہ عنایتوں اور کرم نوازیوں کا حوالہ دینا بھی دعاء کی قبولیت عند اللہ کے لئے خاص اثر رکھتا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ دعاء میں اپنی عاجزی اور انکساری کا بھی جس قدر ہو سکے اظہار وبیان کیا جائے کہ عاجزی کرنے والوں اور بےبسوں کو اس وحدہ لاشریک کی رحمت و عنایت بطور خاص اپنے دامن میں پناہ دیتی ہے ۔ اَللّٰہُمَّ شَرِّفْنَا بَالتَّوْفِیْقِ وَالْقَبُوْلِ ۔ سو حضرت زکریا نے اپنی اس دعا میں ایک طرف تو اپنی پیرانہ سالی اور اپنے ضعف و کمزوری کا ذکر کیا جو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کو کھنچنے والی چیز ہے اور دوسری طرف اس میں اللہ تعالیٰ کی گزشتہ عنایات کا حوالہ دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا میں کبھی بھی ناکام و نامراد نہیں ہوئے۔ اور یہ چیز بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کو کھینچنے والی چیز ہے۔ تاریخی روایات میں وارد ہے کہ حضرت معن بن زائدہ کے پاس ایک سائل آیا تو آپ نے اس سے پوچھا " تم کون ہو ؟ "، " من انت ؟ " تو اس شخص نے کہا میں وہ شخص ہوں جس پر آپ نے فلاں وقت میں احسان کیا تھا۔ تو اس پر حضرت معن نے خوش ہو کر کہا کہ خوش آمدید اس شخص کے لیے جس نے ہمارے حضور ہمارے احسان کا وسیلہ پکڑا ۔ " مرحبا بمن توسل الینا باحساننا " ۔ اور اس کے بعد آپ نے حاجت پوری کردی۔ (تفسیر المراغی ) ۔ سو محسن کے احسان کو یاد کرنا اس کے احسان مزید کا ذریعہ ہے۔ اے مالک جس طرح تو نے اپنے فضل وکرم سے اور محض اپنے فضل و کرم سے اپنی کتاب حکیم کی خدمت اور اس میں مشتغل ہونے کی توفیق وسعادت سے نوازا ہے، اسی طرح اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرما۔ اور اگر کوئی شائبہ بھی اس میں کسی بھی طرح کے کھوٹ کھپٹ کا پایا جاتا ہو اس کو دور کر کے اس کو خالص اپنی رضا کے لیے قبول فرما لے اور اس کو راقم آثم کے اہل و عیال اور جملہ متعلقین کے لیے ہمیشہ ہمیش جاری رہنے والا صدقہ جاریہ بنا دے ۔ آمین ثم آمین -
Top