Tafseer-e-Madani - Maryam : 76
وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى١ؕ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ مَّرَدًّا
وَيَزِيْدُ : اور زیادہ دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا : جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی هُدًى : ہدایت وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے نزدیک ثَوَابًا : باعتبار ثواب وَّخَيْرٌ : اور بہتر مَّرَدًّا : باعتبار انجام
اس کے برعکس، جو لوگ راہ راست اختیار کرتے ہیں، اللہ انھیں راست روی میں اور ترقی عطا فرماتا ہے، اور باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے یہاں سب سے زیادہ اچھی ہیں ثواب کے اعتبار سے بھی، اور انجام کے لحاظ سے بھی
83 راہ راست والوں کی ہدایت میں ترقی و اضافہ : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ راہ راست اپنانے والوں کو اللہ ان کی ہدایت میں مزید اضافہ کرتا اور ترقی دیتا ہے۔ جس سے وہ ہمیشہ خیر کی طرف بڑھتے اور ترقی کرتے جاتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں وہ دنیا میں امن و سکون والی پاکیزہ زندگی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور آخرت میں دائمی سعادت سے بہرہ ور ہوں گے اپنے خالق ومالک کے فضل و کرم سے۔ سو یہ ہے وہ اصل اور انمول دولت جس سے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ اس دنیا میں اپنے خاص بندوں کو نوازتا ہے نہ کہ دنیا کا وہ فانی مال و دولت جس پر ابنائے دنیا مست و مغرور ہیں۔ اور وہ اس کے کمانے اور جوڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور وہ آخرت سے غافل و بیخبر ہو کر فرصت حیات کی متاع گرانمایہ کو اسی حطام دنیا کے لئے ضائع کر رہے ہیں۔ اور نہیں سمجھ رہے کہ اس طرح یہ لوگ اپنے لئے کس قدر ہولناک خسارے کا سامان کر رہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ منکروں اور سرکشوں کو ڈھیل دیتا اور ان کی رسی دراز کرتا ہے اسی طرح وہ ہدایت اختیار کرنے والوں کی ہدایت میں بھی برابر اضافہ فرماتا جاتا ہے۔ سو عقلمند انسان کے نزدیک دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہوتی کہ کس چیز کا فوری اور وقتی نفع کیا ہے بلکہ اس کی نظر اس پر ہوتی ہے اور اسی پر ہونی چاہیے کہ اجر وثواب اور مآل و انجام کے اعتبار سے بہتر کام کونسا ہے۔ سو ابنائے دنیا صرف دنیا کے نفع عاجل اور فوری و وقتی فوائد کو دیکھتے ہیں اور بس۔ ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ جبکہ بندئہ مومن کے نزدیک اصل چیز آخرت کی اصل اور حقیقی زندگی اور اس کا نفع و نقصان ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 84 باقیات صالحات سے مراد اور ان کی اہمیت : اس سے مراد ہر وہ نیک عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور آخرت کی حقیقی اور دائمی زندگی کے لئے کیا جائے۔ جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور ذکر و اذکار وغیرہ وغیرہ۔ جو کہ ہمیشہ باقی رہنے والے اعمال صالحہ ہیں اور جو انسان کو دار آخرت کے اس ابدی جہان میں کام دیں گے جس کیلئے فناء وزوال نہیں۔ اس لئے حضرات اہل علم ان باقیات صالحات کی توضیح و تشریح میں فرماتے ہیں " اَیِ الْاَعْمِال الصَّالِحَاتُ الِّتْی تَبْقٰی لِصَاحِبِہا ذُخْرًا لَہٗ فِیْ الاٰخِرَۃ "۔ (صفوہ، محاسن اور مراغی وغیرہ) ۔ اور ان ہی اعمال صالحہ میں سے وہ اذکار مسنونہ بھی ہیں جو کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو تلقین فرمائے ہیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ان کلمات شریفہ کو باقیات صالحات میں سے قرار دیا گیا ہے ۔ سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَ لاقُوَّۃَ اِلّا باللّٰہِ ۔ سو یہی باقیات صالحات ہیں جو انسان کا اصل سرمایہ اور حقیقی دولت ہیں۔ جو انسان کو آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں کام آئیں گی جبکہ مال و دولت وغیرہ کی وہ عارضی اور فانی چیزیں جو اسی دنیا میں رہ جائیں گی اور یہیں مٹ مٹا کر ختم ہوجائیں گی۔ سو قرآن حکیم میں جو اعمال صالحہ کو جگہ جگہ باقیات صالحات سے تعبیر فرمایا گیا ہے تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جو اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیے جائیں وہی باقی رہنے والے اور پائیدار و غیر فانی ہیں۔ اور جو اعمال صرف دنیائے فانی اور اس کے چند روزہ فوائد کے لیے ہوتے ہیں وہ سب فانی اور غیر صالح ہیں کیونکہ یہ دنیا خود فانی ہے۔ لہذا جو اعمال اس دنیائے فانی ہی کو اصل مقصدبنا کر کیے جائیں گے وہ بھی فانی ہوں گے۔ باقی رہنے والے اعمال صرف وہ ہیں جو خداوند قدوس کی رضا اور آخرت کو مقصود بنا کر کیے جائیں۔ اس لیے کہ خداوند قدوس بھی غیر فانی ہے اور آخرت بھی ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ وہو الوہاب ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top