Tafseer-e-Madani - Maryam : 79
كَلَّا١ؕ سَنَكْتُبُ مَا یَقُوْلُ وَ نَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّاۙ
كَلَّا : ہرگز نہیں سَنَكْتُبُ : اب ہم لکھ لیں گے مَا يَقُوْلُ : وہ جو کہتا ہے وَنَمُدُّ : اور ہم بڑھا دینگے لَهٗ : اس کو مِنَ الْعَذَابِ : عذاب سے مَدًّا : اور لمبا
ہرگز نہیں، ہم لکھتے چلے جا رہے ہیں جو بھی کچھ وہ کہتا ہے اور (اس طرح) اس کے لئے ہم بڑھاتے جائیں گے (اپنا عذاب) اور بڑھانا، اور ہم ہی وارث ہوں اس (کے اس تمام سازو سامان اور لاؤ لشکر) کے
87 منکرین کے عذاب میں اضافے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسی کوئی بات نہیں اور ایسے لوگوں کے لیے کسی طرح کی کوئی چھوٹ نہیں۔ بلکہ ان کی اس طرح کی تمام باغیانہ اور سرکشانہ باتوں کو ہم لکھتے اور ان کے نامہ ہائے اعمال میں درج کیے جا رہے ہیں۔ اور اس نتیجے میں ہم ایسے لوگوں کیلئے عذاب کو بڑھاتے جائیں گے جو اس کے کفر و انکار پر اڑے اور جمے رہنے کا لازمی نتیجہ اور طبعی تقاضا ہے۔ پس اگر کفر و شرک اور ذنوب و معاصی کے باوجود کسی کو دنیاوی مال و دولت ملتا جائے تو یہ اس کے لئے کوئی انعام و اکرام نہیں بلکہ عذاب میں اضافہ و بڑھاوا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو کفر و باطل کی راہ کو اپنانا اور اس پر اڑ اور جم جانا دارین کی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے۔ اور ایسا کہ اس کے بعد دنیا ملے تو بھی عذاب اور نہ ملے تو بھی عذاب۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف چونکہ یہ لوگ اپنے جرم بغاوت و سرکشی اور کفر و انکار میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے ان کے کفر و انکار کی میل اور پکی اور سخت ہوتی جاتی ہے اور ان کے کفر و انکار کے زنگ سے ان کے دلوں کی دینا اور سیاہ اور مزید تباہ ہوتی جاتی ہے۔ پھر حق سے اعراض و روگردانی کے ساتھ ساتھ ایسے بدبخت لوگ حق کے ساتھ مذاق و استہزاء کے اپنے کافرانہ رویے سے اپنے کفر کی سیاہی کو مزید پکا کرتے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے عذاب میں یہ اضافہ ایک طبعی امر اور ان کے اس سرکشانہ اور باغیانہ وریے کا منطقی نتیجہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ نفس و شیطان کے ہر شر سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top