Tafseer-e-Madani - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم نے شیطانوں کو ان کافروں پر چھوڑ رکھا ہے جو انھیں طرح طرح سے اکساتے ہیں (حق اور اہل حق کی مخالفت پر)
91 شیطان کا کام اکسانا، بڑھکانا ۔ والعیاذ باللہ : پس شیطان کا کام محض اکسانا، بھڑکانا اور برائی کی ترغیب دینا ہے۔ نہ کہ مجبور کردینا۔ جیسا کہ قیامت کے روز وہ خود کہے گا ۔ { وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُم مِّنْ سُلْطَانٍ اِلَّا اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ } ۔ (ابراہیم : 22) جس طرح کہ حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کا کام صرف حق کی دعوت دینا ہے اور خیر کی طرف بلانا ہے نہ کہ ایمان و اقرار پر مجبور کردینا۔ زمخشری کہتے ہیں کہ " اِزَّھَزَّ " اور " اسْتَفَرَّ " تینوں الفاظ قریب قریب ایک معنیٰ میں آتے ہیں۔ یعنی اکسانا، بھڑکانا اور انگیخت کرنا وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس ارشاد سے اس امر کو واضح فرمایا گیا ہے کہ یہ مشرک لوگ اللہ کی اس سنت کی زد میں آئے ہوئے ہیں کہ جو کوئی خدائے رحمان کی یاد دلشاد سے منہ موڑ کر اندھا بن جاتا ہے اس پر شیطان کو مسلط کردیا جاتا ہے۔ پھر وہی اس کا ساتھی اور دوست بن جاتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَہُوَ لَہُ قَرِیْنٌ} ۔ (الزخرف :36) ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top