Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 10
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : بیماری ہے فَزَادَھُمُ : پس زیادہ کیا ان کو / بڑھایا ان کو اللّٰهُ : اللہ نے مَرَضًا : بیماری میں وَ : اور لَھُمْ : ان کے لئے عَذَابٌ : عذاب ہے اَلِيْمٌ : درد ناک / المناک بِمَا : بوجہ اس کے جو كَانُوْا : تھے وہ يَكْذِبُوْنَ : جھوٹ بولتے
ان کے دلوں میں ایک بڑی (خطرناک) بیماری ہے۔ پھر اللہ کی طرف سے (ملنے والی مہلت کے باعث) ان کی یہ بیماری اور بڑھ گئی اور ان کے لئے بڑا ہی دردناک عذاب ہے ان کے اس جھوٹ کی بنا پر جو یہ لوگ بولتے تھے (پوری ڈھٹائی کے ساتھ)4
24 منافقوں کے دلوں کے ہولناک روگ کا بیان : یعنی کفر و نفاق کا وہ ہولناک روگ اور خطرناک بیماری جو کہ ظاہری اور حسی بیماریوں سے کہیں بڑھ کر مضر اور نقصان دہ بیماری ہے۔ کیونکہ ظاہری اور جسمانی بیماری کسی کو دوزخ میں نہیں لے جاتی۔ جبکہ کفر و نفاق کی یہ بیماری ایسے مریضوں کو دوزخ کے نچلے گڑھے میں گرا کر چھوڑے گی۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم۔ سو کتنے نادان اور برخود غلط ہیں وہ لوگ جو اپنی جسمانی بیماریوں کی فکر تو کرتے ہیں مگر نار جہنم سے ہم کنار کرنے والی ان خطر ناک روحانی بیماریوں کی پروا ہی نہیں کرتے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ ان لوگوں کے دلوں میں کفر و نفاق اور کبر وعناد کا ایسا ہولناک روگ موجود ہے جس نے ان کے دل و دماغ کو معطل اور ان کی قوت فہم وادراک کو ماؤف و بےکار کردیا ہے۔ جس سے یہ لوگ اپنے نفع و نقصان کا فرق وتمیز کرنے کے بھی لائق نہیں رہے ۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ و شر ۔ 25 منافقوں کے مرض میں اضافہ اور بڑھوتری : ان کے اپنے خبث باطن اور سوء اختیار کی بنا پر جس سے حق بات ان کے دلوں میں اترتی ہی نہیں۔ سو امہال خداوندی سے دھوکے میں پڑنا ایمان سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ پس وہ مہلت جو کہ وہ اپنے کرم بےپایاں اور رحمت بےنہایت سے ان کو دے رہا ہے، تاکہ یہ لوگ اپنی اصلاح کرلیں، اور غلط روی سے باز آجائیں، مگر یہ الٹا اس کو اپنی سرکشی میں اضافے کا باعث بناتے ہیں، کہ اگر ہم لوگ غلط ہوتے تو ہم پر فوری عذاب کیوں نہ آجاتا، اور اس طرح فرصت عمر کے اس سنہری موقع کو یہ لوگ ضائع کررہے ہیں، جو پھر کبھی ہاتھ آنے والا نہیں۔ سو امہال خداوندی سے دھوکے میں مبتلا ہونا بڑا ہولناک خسارہ اور نہایت خطرناک شیطانی دھوکہ ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم الْعَزِیْز الرَّحْمٰن۔ پس عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس مہلت و فرصت سے فائدہ اٹھائے۔ وباللہ التوفیق۔ مرض کا اطلاق منافقت پر ہوتا ہے۔ اور حسد اور دل کی جلن پر بھی کہ یہ سب بھی امراض قلوب میں سے ہیں۔ (محاسن التاویل وغیرہ) اور ان کے مرض کے اضافے کو جو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا تو یہ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو لوگ اس طرح حق سے منہ موڑتے ہیں وہ اسی طرح محروم ہوتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم 26 منافقوں کیلئے " عذاب الیم " کا بیان : ایسا دردناک، اور اس قدر ہولناک کہ اس کا یہاں پر تصور کرنا بھی کسی کیلئے ممکن نہیں، جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر اس کی طرح طرح سے منظر کشی فرمائی گئی ہے، مثلاً سورة الفجر میں ارشاد ہوتا ہے { فَیَوْمَئِذٍ لاَّ یُعَذِّبُ عَذَابَہَ اَحَدُ وَلاَ یُوْثِقُ وَثَاقَہٗ اَحَدُ } " سو اس روز نہ تو اس کے عذاب جیسا عذاب کوئی دے سکے گا، اور نہ ہی اس کے جکڑنے جیسا کوئی جکڑ سکے گا " (الفجر : 26 ۔ 27) ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ الْعَزیْزِالرَّحْمَن ۔ سو منافق لوگ اپنے آپ کو بڑا تیز و طرار اور بہت کچھ سمجھتے جانتے ہیں، مگر ان کو اس کا احساس نہیں کہ اس طرح وہ اپنے لیے کس قدر ہولناک انجام کا سامان کررہے ہیں، اور وقت آنے پر ان کو کس قدر دردناک عذاب سے واسطہ پڑے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ الیم دراصل اس عذاب کو کہا جاتا ہے جو ایذاء رسانی میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہو۔ ( محاسن التاویل وغیرہ) سو ان بدبختوں کو ایسے ہولناک عذاب سے دوچار ہونا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ جو ایلام و ایذا میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 27 جھوٹ کی ہلاکت خیزی اور قباحت کا ایک مظہر : سو اس سے جھوٹ کے گناہ کی شدت و خطورت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، کہ منافقوں کے اس دردناک عذاب کی اصل علت کے طور پر یہاں اسی کذب کا ذکر فرمایا گیا ہے، اسی لئے صحیح حدیث میں وارد ہے کہ حضرت نبی معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) سے جب پوچھا گیا کہ کیا مومن " جبان " (بزدل) ہوسکتا ہے ؟ تو فرمایا، ہاں، یعنی مومن بزدل ہوسکتا ہے، اور جب پوچھا گیا کہ کیا مومن " بخیل " (کنجوس) ہوسکتا ہے ؟ تو فرمایا، ہاں، یعنی مومن بخیل اور کنجوس بھی ہوسکتا ہے، لیکن جب پوچھا گیا کہ کیا مومن " کذاب " (جھوٹا) ہوسکتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، یعنی مومن کذاب اور جھوٹا نہیں ہوسکتا، جس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور کذب میں ایسا تضاد ہے کہ یہ دونوں وصف یکجا نہیں ہوسکتے، مگر افسوس کہ اس سب کے باوجود آج کے مسلم معاشرہ میں اس " ام المعاصی " یعنی جھوٹ کا ایسا دور دورہ اور اس قدر چلن اور رواج ہوگیا ہے کہ اس کا گناہ اور برائی ہونا ہی گویا نظروں سے بالکل اوجھل ہوگیا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس کو دور حاضر کی نام نہاد سیاست کا ایک لازمہ و خاصہ اور تقاضا سمجھا جانے لگا ہے، اور ایسے لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ الْعَزِیْزِالرَّحْمٰن ۔ سو یہ لوگ چونکہ جھوٹ بولتے اور جھوٹ کو اپنا کمال سمجھتے تھے اس لیے ان کو ایسا دردناک عذاب ہوگا جو ان کے اس سنگین جرم کے عین مطابق ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top