Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 101
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ١ۙۗ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ٘
وَلَمَّا : اور جب جَآءَهُمْ : آیا، اُن رَسُوْلٌ : ایک رسول مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کی طرف مُصَدِّقٌ : تصدیق کرنے والا لِمَا : اسکی جو مَعَهُمْ : ان کے پاس نَبَذَ : پھینک دیا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنَ : سے الَّذِیْنَ : جنہیں أُوْتُوا الْكِتَابَ : کتاب دی گئی كِتَابَ اللہِ : اللہ کی کتاب وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ : اپنی پیٹھ پیچھے کَاَنَّهُمْ : گویا کہ وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہی نہیں
اور (اس کا ایک زندہ ثبوت یہ ہے کہ) جب آگیا ان کے پاس ایک ایسا عظیم الشان رسول اللہ کی طرف سے، جو کہ تصدیق کرنے والا ہے اس (کتاب) کی جو ان کے پاس ہے، تو ان لوگوں کے ایک گروہ نے جن کو کتاب دی گئی تھی پھینک دیا گیا اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے، (اور ایسا کہ) گویا کہ یہ جانتے ہی نہیں
280 نبی آخر الزماں کی بعثت و تشریف اور یہود کا ردِّعمل : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب آگیا ان کے پاس ایک عظیم الشان رسول۔ یعنی نبئ آخر الزماں، امام الانبیاء والمرسلین، خاتم الرسل والنبیین، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جن کی شان سب سے بڑی اور جن کی نبوت و رسالت قیامت تک کے سب زمانوں اور جملہ انسانوں کیلئے عام ہے تو انہوں نے اس کا انکار کردیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ صَلَوَات اللّٰہ وَسَلامُہٗ عَلَیْہ وَعَلٰی آلہ وصَحْبِہٖ اِلٰی یَوْم الْعَرْض عَلَی اللّٰہ وَ اللِّقَائِ ۔ سو اس عظیم الشان نعمت اور جلیل احسان خداوندی کا تقاضا یہ تھا کہ یہ لوگ آگے بڑھ کر اس نعمت کو اپناتے، اس کی قدر کرتے، اور اس پیغمبر آخر الزمان پر صدق دل سے ایمان لاکر اپنے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرتے، مگر انہوں نے اس کے برعکس کفر و انکار سے کام لیکر اپنے لیے ابدی ہلاکت و تباہی کا سامان کیا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ 281 حسد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حسد اور ہٹ دھرمی انسان کو اندھا بہرا بنا دیتی ہے جس کے نتیجے میں محرومی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب آگیا ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک ایسا عظیم الشان رسول جو کہ تصدیق کرنے والا تھا اس کتاب کی جو ان لوگوں کے پاس تھی۔ تو انہوں نے اللہ کی کتاب کو اس طرح اپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا گویا کہ یہ جانتے ہی نہیں۔ محض حسد اور عناد کی بنا پر اور اپنے دنیوی فوائد و منافع کے لالچ میں۔ حالانکہ اس نبی منتظر پر ایمان لانا خود ان کی اپنی کتابوں پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا تھا جس کا یہ دم بھرتے اور بڑھ چڑھ کر دعوی کرتے ہیں۔ مگر حسد وعناد اور ہٹ دھرمی نے ان کو ایسا اندھا اور اس قدر اوندھا کردیا کہ ان کو حق اور ہدایت کی بات سمجھ آتی ہی نہیں۔ سو حسد اور ہٹ دھرمی انسان کو اندھا بہرا بنادیتی ہے، اور ایسا اندھا اور بہرا کہ اس کے بعد نہ اس کو حق بات سننے سمجھنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور نہ اس کو اپنانے اور اختیار کرنے کی، اور اس طرح یہ محروم کے محروم ہی رہتے ہیں، سو عناد اور ہٹ دھرمی محرومیوں کی محرومی ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔
Top