Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور (حق سے منہ موڑ کر) یہ لوگ پیچھے لگ گئے ان چیزوں کے جو کہ شیطان سکھاتے (پڑھاتے) تھے لوگوں کو سلیمان کی بادشاہی کے نام پر، اور سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا مگر یہ شیطان ہی تھے جو کفر کرتے، اور سکھاتے تھے لوگوں کو جادوگری،5 نیز (یہ پیچھے ہو لئے اس کے) جو کچھ کہ اتارا گیا بابل میں ہاروت ماروت (نامی) دو فرشتوں پر،6 حالانکہ وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے، جب تک کہ (صاف طور پر اس سے) یہ نہ کہہ دیتے کہ (دیکھو بھئی) ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، پس تم کہیں کفر میں نہ پڑجانا،7 پھر بھی وہ لوگ ان دونوں سے وہ کچھ سیکھتے، جس کے ذریعے وہ تفریق کرتے میاں بیوی کے درمیان، حالانکہ اس (جادوگری) کے ذریعے وہ کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے، مگر اللہ کی اجازت (اور اسکی مشیت) سے8 اور یہ لوگ وہ کچھ سیکھتے جو خود ان کو نقصان پہنچانے کا باعث تو تھا (دنیا و آخرت میں) مگر ان کو نفع نہیں دے سکتا، حالانکہ خود ان کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ جس نے بھی اس کو خریدا، اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور بڑی ہی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کا سودا کیا، کاش کہ یہ لوگ جان لیتے (حق اور حقیقت کو)9
282 کتاب الہی کو پس پشت ڈالنے کی سزا ۔ والعیاذ باللہ : سو اس کے نتیجے میں یہ لوگ کتاب الہی کو چھوڑ کر جادو ٹونوں کے پیچھے لگ گئے اور اس طرح محرومی در محرومی کا شکار ہوگئے۔ سو یہ یہود کی بدبختی کا ایک نمونہ ہے کہ یہ لوگ کتاب الہٰی کو چھوڑ کر جادو ٹونوں کے پیچھے لگ گئے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ یعنی جادوگری اور طرح طرح کے ٹونے ٹوٹکے۔ سو دیکھو کتنے بدنصیب نکلے یہ لوگ کہ کتاب الہی اور نور وحی سے منہ موڑ کر اس طرح کی خرافات اور کفریات میں لگ گئے۔ افسوس کہ آج کتنے ہی جہالت اور بدعت کے مارے مسلمان ہیں جو اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ قرآن و حدیث کی نورانی تعلیمات سے منہ موڑ کر وہ اسی طرح کے خود ساختہ اور طرح طرح کے گورکھ دھندوں میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ من گھڑت قصے کہانیاں تصنیف کرکے ان خرافات کو رواج دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ بس اتنا لکھ دیتے ہیں کہ " روایت ہے " کس کی روایت ہے ؟ اور کہاں کی روایت ہے ؟ اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ یا لکھتے ہیں کہ اسناد اس دعا کے بہت ہیں مگر مختصر یہ کہ وغیرہ وغیرہ۔ چناچہ اسی طرح کے حیلوں حوالوں سے کام لیکر ایسے بہکے بھٹکے لوگوں اور ہوی و ہوس کے پجاریوں نے عام لوگوں کو " عہد نامہ "، " نورنامہ "، " دعائے گنج العرش "، " دعائے جمیلہ "، " دعائے عکاشہ " اور " درود ماہی " وغیرہ مختلف خود ساختہ چیزوں میں ایسا الجھا اور پھنسا دیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہی نہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ اتنا کرینگے کہ اس کو چوم چاٹ کر مختلف جزدانوں میں بند کر کے رکھ دینگے اور بس۔ کہ صاحب، اس کو کون سمجھ سکتا ہے ؟ یہ تو محض برکت کیلئے ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور اس طرح یہ لوگ خسارہ در خسارہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ سو اصل چیز جس سے تعلق اور اشتغال رکھنے کی ضرورت ہے وہ ہے کتاب اللہ الحکیم۔ جو کہ اللہ کا نازل کردہ مکمل ہدایت نامہ ہے۔ اور جو انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا کفیل وضامن ہے۔ اور سنت رسول جو کہ اس کتاب حکیم کی شرح اور اس کی تفسیر ہے۔ وباللہ التوفیق ۔ اور جو چیز اس سے روکنی والی ہو وہ سراسر خسارہ اور وبال ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ پس دین حنیف کی اس نعمت کو اپنانا سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ اور اس سے محرومی دنیا و آخرت سے محرومی اور سب سے بڑا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 283 جادو کا شیطانی کاروبار حضرت سلیمان کے نام پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ ان چیزوں کے پیچھے لگ گئے جو کہ شیطان پڑھتے پڑھاتے تھے لوگوں کو حضرت سلیمان کی بادشاہی کے نام پر کہ صاحب حضرت سلیمان کی اتنی بڑی سلطنت اور ایسی بےمثال بادشاہی، انہی جادو ٹوٹکوں کے ذریعے چلتی تھی ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ اور اس بارے یہ لوگ طرح طرح کے خود ساختہ اور من گھڑت قصے تصنیف کرتے اور ان کو طرح طرح سے پھیلاتے ہیں۔ اور اس طرح کے جادو ٹوٹکوں کے کاروبار کو چلاتے ہیں۔ عام طور پر حضرات مفسرین کرام یہاں پر کلمہء " علٰی " کو " فی " کے معنیٰ میں لیتے ہیں یعنی شیاطین یہ کام حضرت سلیمان کے دور حکومت میں کرتے تھے۔ مگر تعجب ہوتا ہے کہ " علٰی " کو اپنے معنیٰ پر رکھ کر جو سیدھا اور زیادہ واضح مطلب بنتا ہے اس کو چھوڑ کر ان حضرات کو " علٰی " " فی " کے مجازی معنی میں لینے کی آخر ضرورت کیا پیش آئی۔ اور پھر جب حضرت سلیمان کو جنوں پر کنٹرول اور حکمرانی کا امتیاز بھی حاصل تھا تو وہ اپنے دور حکومت میں ان لوگوں کو جادو گری کے اس کفریہ کاروبار کی اجازت اور چھوٹ دے ہی کس طرح اور کیونکر سکتے تھے ؟ اس لئے صاف اور واضح مطلب وہی ہے جو کہ لفظ " علٰی " کو اپنے حقیقی معنیٰ پر محمول کرنے سے بنتا ہے۔ اور جس کو ہم نے اختیار کیا ہے کہ شیاطین نے حضرت سلیمان (علیہ الصلوۃ والسلام) کے نام پر اپنے اس کفریہ کاروبار کو ان کے بعد چلایا اور اس بارے مختلف قصے اور افسانے ان لوگوں نے گھڑ گھڑ کر اور خود بنا بنا کر لوگوں میں پھیلائے کہ سلیمان کی بادشاہی اسی جادوگری کا کرشمہ تھی ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ ورنہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے نہ یہ کفر یہ کاروبار کیا نہ اس کی اجازت دی۔ جیسا کہ آگے صاف طور پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنََ کَفَرُوْا } ۔ اور آج بھی " سلیمانی جادو " کے نام سے طرح طرح سے جادوگری اور شعبدہ بازی کے اس کاروبار کو چلایا جا رہا ہے۔ اور کتنے ہی سادہ لوح اور دین سے ناواقف لوگوں کو اس حال میں پھنسایا جا رہا ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْْعَََظِیْْمِ ۔ بہرکیف یہود کتاب ہدایت سے منہ موڑ کر جادوگری کے اس شیطانی کاروبار کے پیچھے لگ گئے، اور اس طرح منصہ شرف سے گر کر قعر مذلّت میں جاپڑے۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے دین حق سے اعراض و روگردانی کا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ 284 ہاروت و ماروت کے جاود کی کیفیت ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ نیز یہ لوگ پیچھے لگ گئے اس چیز کے جس کو اتارا گیا تھا بابل میں ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں پر۔ یعنی جادو، جو کہ ایک خاص حکمت اور اہم مقصد کیلئے قدرت کی طرف سے ان دونوں کو سکھایا گیا تھا، تاکہ اس طرح وہ لوگوں کو معجزہ اور جادو کے درمیان فرق سمجھا سکیں، کیونکہ معجزہ خرق عادت کے طور پر ظاہری اسباب کے بغیر، بلکہ ان کے برعکس ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اور سحر و جادو کی ظاہری شکل بھی اسی طرح کی ہوتی ہے، اس لئے عام لوگوں کو اس سے اشتباہ ہوجاتا ہے، اور ان کیلئے ان دونوں کے درمیان فرق وتمییز کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے ان دونوں فرشتوں کے ذریعے قدرت کی طرف سے عام لوگوں کو معجزہ اور جادو کے درمیان فرق و تمییز کرنے کا انتظام فرمایا گیا، اب جو سلیم اور سیدھی طبیعتیں تھیں، انہوں نے تو اس سے فائدہ اٹھایا، اور وہ معجزہ و جادو کے درمیان اس فرق سے آگاہ ہوگئے، اور شعبدہ بازوں اور جادوگروں کے چنگل میں پھنسنے سے بچ گئے، مگر جو ٹیڑھی طبیعتوں والے تھے انہوں نے الٹا اس سے آگے یہی کاروبار شروع کردیا، اور وہ جادوگروں اور شعبدہ بازوں کے اسی مذموم عمل میں لگ گئے، اور ان کے گروہ میں شامل ہوگئے، ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ ہذا ما استفدناہ من صفوۃ البیان فی معانی القران وبیان القران والمعارف للکاندہلوی (رح) و غیرہا من التفاسیر ۔ اس میں اور بھی اقوال و احتمال اور مختلف بحثیں ہیں ۔ و سنذکرہا مفصلۃ فی التفسیر المفصل انشاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ و بتوفیق منہ جل و علا ان کان للعمر بقیۃ ۔ یہاں اس وقت اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ وفیہ کفایۃ ۔ البتہ اس بارے ایک اور اہم قول و احتمال کو ذکر کردینا مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جو معقول اور دل کو لگنے والا ہے کہ ما انزل علی الملکین سے مراد الفاظ و کلمات کے وہ خواص اور اثرات ہیں جو قدرت نے ان کے اندر رکھے ہیں تاکہ اس طرح اور ان کے ذریعے وہ لوگ جادو کے مضر اثرات اور نقاصانات سے بچ سکیں۔ مگر شرپسند لوگوں نے خواص کے اسی علم کو اپنی مذموم اغراض کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا اور وہ اس کو تفریق بین الزوجین جیسے سفلی امور کے لیے استعمال کرنے لگے اور انہوں نے اس کے لیے مختلف قسم کی دکانیں سجا لیں۔ جیسا کہ شعبدہ باز قسم کے لوگ آج بھی اسی طرح کے کاروبار طرح طرح کے ناموں اور مختلف عنوانات سے کر رہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 285 جادوگری کا کاروبار کفر ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ دونوں فرشتے ایسے شخص سے کہتے کہ دیکھو بھئی ہم تو محض ایک ابتلاء و آزمائش ہیں۔ پس تم کہیں کفر میں نہیں پڑجانا۔ یعنی ہمارا مقصد تو سحر اور معجزہ کے درمیان کے فرق کو ظاہر کرنا اور جادوگروں اور شعبدہ بازوں کا راستہ روکنا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو گمراہی میں نہ ڈال سکیں، اور ان کو شرک و بت پرستی وغیرہ میں مبتلا نہ کرسکیں۔ اب جس نے ہم سے اس مقصد کیلئے اس کو سیکھا اور آگے نہ اس پر یقین کیا نہ عمل، تو وہ بچ گیا اور محفوظ رہا۔ اور جس نے ہم سے سیکھ کر آگے یہی کاروبار شروع کردیا اور وہ اس پر یقین و اعتقاد کر بیٹھا تو وہ مارا گیا، کہ اس نے کفر کا ارتکاب کیا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ سو اس سے یہ امر ظاہر اور واضح ہوجاتا ہے کہ جادو کا عمل ایک کفریہ عمل ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جو بھی کوئی ان سے سیکھنے آتا تو وہ اس سے صاف اور صریح طور پر کہہ دیتے کہ دیکھو بھئی ہم تو محض ایک آزمائش اور فتنہ ہیں۔ پس خبردار کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کفر میں پڑجاؤ اور ایمان کی دولت اور اس کے نور سے محروم ہوجاؤ ۔ والعیاذ باللہ ۔ ( معارف للکاندھلوی ) ۔ 286 نفع و نقصان اللہ تعالیٰ ہی کے اذن اور اس کی مشیئت پر موقوف ہے : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ اس کے ذریعے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے مگر اللہ تعالیٰ ہی کے اذن اور اس کی مشیت سے "۔ یعنی جادوگری کا یہ معاملہ بھی عام اسباب و مسببات کی طرح اللہ تعالیٰ کے اذن اور اس کی مشیت پر موقوف ہے، وہ جب چاہے اور جس کے حق میں چاہے کسی مسبب کو سبب پر مرتب فرما دے، ورنہ اس کے علاوہ ان لوگوں کو کوئی ایسی قوت و تاثیر نہیں بخشی گئی تھی کہ وہ اپنے طور پر جسکو چاہیں کوئی نفع یا نقصان پہنچا دیں۔ اگر ایسا ہوتا تو جادوگر اپنی جادوگری کے ذریعے جہاں چاہتے اودھم مچا دیتے مگر معاملہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کے ہاتھ میں اور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ نفع و نقصان کا مدارو انحصار اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور اس کے اذن پر ہے۔ وہ جب چاہے سحر یا کسی بھی چیز میں تاثیر پیدا فرما دے۔ اور جب چاہے کسی سے اس کی تاثیر سلب فرما دے۔ سو اصل چیز ہے اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ و اعتماد رکھنا کہ اس کائنات میں جو بھی کچھ ہوتا ہے اسی کی مشیت کے تحت اور اسی کے اذن سے ہوتا ہے۔ کہ اس کی مخلوق اور اس کی کائنات میں اسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے اپنا تعلق اس وحدہ لا شریک کے ساتھ ہمیشہ صحیح رکھا جائے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ 287 جادوگری کا وبال خود جادوگروں پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس سب کے باوجود وہ لوگ ان دونوں سے وہ کچھ سیکھتے تھے جو ان کو نقصان تو پہنچا سکتا تھا لیکن ان کو نفع اور فائدہ کچھ نہیں دے سکتا تھا۔ کیونکہ سحر اور جادو کے اس کاروبار کے ذریعے دوسروں کو نقصان پہنچانے کی اس روش سے ان کو خود بھی نقصان پہنچتا ہے اور یہ دوسرے لوگوں کے یہاں بھی مبغوض قرار پاتے اور آخرت کا عذاب الگ اپنے سر لیتے اور ذلت کی زندگی گزارتے ہیں۔ چناچہ آج تک ان لوگوں کا یہی حال ہے کہ سب سے زیادہ محتاج اور بدحال ہوتے ہیں اور انہی دنوں میں جبکہ راقم آثم ان سطور کی پروف ریڈنگ کررہا ہے اخبارات اور ٹیوی وغیرہ ذرائع ابلاغ میں یہ ہولناک خبر گردش کررہی ہے کہ جنوبی ہندوستان کے ایک گاؤں میں ہندوؤں کے ایک بڑے گروہ نے ایک جلوس کی شکل میں جادوگروں کے گھروں پر ہلہ بول دیا۔ ان میں سے جو لوگ بھاگ گئے وہ تو بچ گئے لیکن جن پانچ اشخاص کو انہوں نے پکڑا جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی ان کی پہلے تو ان لوگوں نے خوب پٹائی کی، اور پھر ان کو درختوں کے ساتھ باندھ کر پٹرول چھڑکا اور ان سب کو انہوں نے زندہ جلا کر " فی النار والسقر " کردیا ۔ والعیاذ باللہ مِنْ کُلّ سُوْئٍ وَّشَرّ- 288 علم حق ہی ذریعہ اصلاح و نجات ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ جان لیتے حق اور حقیقت کو تو یہ وہ کچھ نہ کرتے، جو اب کر رہے ہیں، اور اس طرح یہ لوگ دارین کی تباہی کے سامان سے بچ جاتے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ لیکن چونکہ یہ لوگ حق اور حقیقت کے علم کی اس دولت سے محروم تھے، اس لیے یہ راہ راست سے سرفراز نہ ہوسکے۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ علم حق ہی ذریعہ اصلاح و نجات ہے، کہ اس کے بغیر انسان گھمبیر اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے، اور وہ طرح طرح کے ہولناک گڑھوں میں گرتا جاتا ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ پس حق اور حقیقت کے اس علم ہی سے راہ حق و صواب روشن ہوسکتی ہے جس کا منبع ومصدر وحی خداوندی ہو اور اسی روشنی کے ذریعے انسان مہالک سے بچ سکتا ہے۔ ورنہ اس کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top