Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 121
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
الَّذِينَ : جنہیں اٰتَيْنَاهُمُ : ہم نے دی الْكِتَابَ : کتاب يَتْلُوْنَهٗ : اس کی تلاوت کرتے ہیں حَقَّ : حق تِلَاوَتِهٖ : اس کی تلاوت اُولٰئِکَ : وہی لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِهٖ : اس پر وَ مَنْ : اور جو يَكْفُرْ بِهٖ : انکار کریں اسکا فَاُولٰئِکَ : وہی هُمُ الْخَاسِرُوْنَ : وہ خسارہ پانے والے
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی (اور) وہ اس کو ایسے پڑھتے ہیں جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے،1 تو یہی لوگ ہیں جو (درحقیقت) اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور جس نے اس کا انکار کیا تو ایسے ہی لوگ ہیں خسارے والے،2
336 " الکتاب " سے مراد جنس کتاب : یعنی الکتاب سے یہاں پر مراد جنس کتاب، اور مراد اس سے تورات و انجیل وغیرہ ہے، اور دوسرا قول اس میں یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن حکیم ہے (جامع البیان، صفوۃ البیان، محاسن التاویل، اور معارف وغیرہ) ۔ سو اس ارشاد ربانی میں اہل کتاب کے ان اچھے اور حق پرست لوگوں کا ذکر ہے جو اپنی کتاب کی قدر کرتے اور اس پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے۔ رہے وہ اہل کتاب جو اس شرف و امتیاز سے محروم تھے، اور ان کی مثال اس گدھے کی تھی جسکی پیٹھ پر کتابوں کے انبار لگے ہوتے ہیں مگر اس کو کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا لدا ہے، تو ان کا معاملہ الگ ہے، کہ ایسے بےقدرے اور ناشکرے لوگ بہرحال علم اور ہدایت کی نعمت سے محروم ہی رہتے ہیں اور وہ گدھے کے گدھے ہی رہتے ہیں، کہ اللہ پاک کا قانون و دستور اور اس کی سنت یہی ہے کہ وہ ایمان و یقین کی معنوی اور روحانی نعمتوں سے انہی کو نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے جو ان کے قدردان اور خواہش مند ہوتے ہیں جبکہ بےقدرے اور ناشکرے محروم ہی رہتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْمٍ من کل زیغ وضلال ۔ 337 اللہ کی کتاب کی تلاوت حق تلاوت کے ساتھ : کہ وہ اس پر سچا پکا ایمان یقین رکھتے ہیں، اس کے الفاظ و حروف کو صحیح طور پر ادا کرتے ہیں، اس کے معانی و مطالب کو سیکھتے، اور اس کے مطابق اپنے عقائد و اعمال اور اخلاق و کردار کی اصلاح کرتے ہیں، یہ سب کچھ " حَقَّ تَلاوَتِہ " کے عموم میں داخل ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہمُ وَرَضُوْ اعَنْہُ ۔ وغیرہ صحابہ کرام اور کبار مفسرین و علماء سے مروی و منقول ہے ( ابن کثیر، جامع البیان، القاسمی وغیرہ) سو کتاب اللہ کا ہم پر حق ہے کہ ہم اس کو حق تلاوت کے ساتھ تلاوت کریں، تاکہ اس کے انوار و تجلیات سے سرفراز و فیضیاب ہوسکیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ 338 نبی آخر الزمان پر ایمان لانا اہل کتاب کے اپنی کتاب پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے : یعنی اپنی کتاب پر، اور چونکہ اپنی اس کتاب میں وہ کسی تحریف و تبدیل وغیرہ سے کام نہیں لیتے تو اس کے نتیجے میں وہ نبی آخرالزمان پر بھی ایمان لے آتے ہیں، اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب حکیم قرآن کریم پر بھی۔ کیونکہ ان کی کتابوں میں نبی آخرالزماں ﷺ اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والی آخری وحی اور خاتم الکتب سے متعلق بشارات اور پیشینگوئیاں درج ہیں۔ اس لئے حضرت خاتم الانبیا ﷺ پر ایمان لانا ان کی اپنی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا ہے۔ چناچہ اہل کتاب میں سے ایسے سچے مومن نبی آخرالزمان اور قرآن کریم پر سچے دل سے ایمان لے آئے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام، بن صوریا اور بن یامین وغیرہ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " بہ " کی ضمیر مجرور کا مرجع قرآن حکیم ہو، یعنی اہل کتاب میں سے جو لوگ اپنی کتاب کے پڑھنے کا حق ادا کرتے ہیں وہی قرآن حکیم پر ایمان لاتے ہیں، اور تیسرا احتمال اس میں یہ ہے کہ " الکتاب " سے مراد ہی اصل میں قرآن مجید ہو، یعنی جن لوگوں کو ہم نے قرآن سے نوازا ہے اور وہ اس کے پڑھنے کا حق ادا کرتے ہیں وہی اصل میں اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ (معارف للکاندہلوی (رح) وغیرہ) ۔ سو یہ تینوں احتمال اس ارشاد ربانی کی تفسیر میں موجود ہیں، اور تینوں ہی درست ہیں اور ہر ایک کا معنی صحیح بنتا ہے۔ سو جو لوگ قرآن پر ایمان نہیں لاتے ان کا اپنی کتاب پر ایمان کا دعوی بھی صحیح نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 339 حق کے منکر سراسر خسارے میں ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر وقصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے ہی لوگ خسارے میں ہیں کہ ہدایت کے اس نور سے محرومی دراصل دارین کی سعادت و سرخروئی سے محرومی ہے۔ سو اس سے بڑھ کر خسارہ اور نقصان اور کیا ہوسکتا ہے ؟ کہ انسان نور حق سے محروم ہو کر اندھا بہرا بن کر رہ جائے، اور ہلاکت اور تباہی کے دائمی گڑھے میں جاگرے ؟ اور اس طور پر کہ پھر اس سے نکلنے اور بچنے کی کوئی صورت بھی اس کے لیے ممکن نہ رہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَزِیْز الْعَظِیْمٍ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ حق کے منکر سراسر خسارے میں ہیں کہ انہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی کو اور روشنی کے بجائے اندھیرے کو اپنایا۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ اور اس طرح انہوں نے منصہ شرف سے گر کر حضیض مذلت اور قعر ہلاکت کو اپنایا اور نعیم جنت سے سرفرازی کی بجائے نار جحیم کی راہ کو اپنایا۔ تو پھر اس سے بڑھ کر خسارہ اور کونسا ہوسکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top