Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 137
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ١ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ
فَاِنْ : پس اگر اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں بِمِثْلِ : جیسے مَا آمَنْتُمْ : تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر فَقَدِ اهْتَدَوْا : تو وہ ہدایت پاگئے وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : انہوں نے منہ پھیرا فَاِنَّمَا هُمْ : تو بیشک وہی فِي شِقَاقٍ : ضد میں فَسَيَكْفِيکَهُمُ : پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا اللّٰہُ : اللہ وَ : اور هُوْ : وہ السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
پس اگر یہ لوگ اسی طرح کا ایمان لے آئیں جس طرح کا تم لائے ہو، تو یقینا یہ ہدایت پاگئے، اور اگر یہ (اس کے بعد بھی) پھرے ہی رہے، تو یقینا یہ ضد (اور ہٹ دھرمی کی دلدل) میں پڑے ہوئے ہیں، سو اللہ کافی ہے آپ کو ان سب کے مقابلے میں، اور وہی ہے سننے والا، جاننے والا،2
377 حضرات صحابہ کرام کا ایمان معیار حق و صداقت : یعنی اگر یہ لوگ سب انبیاء و رسل پر اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح کہ تم لائے ہو تو یہ ہدایت پا گئے اور کامیاب ہوگئے۔ سو یہ ایک بڑا اہم اور بنیادی ضابطہ ہے جو یہاں بیان فرمایا گیا ہے، اور جس سے ھدایت و ضلالت کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کہ کون حق و ہدایت پر ہے، اور کون نہیں۔ پس جو بھی کوئی صحابہ کرام کی طرح کا ایمان نہ رکھتا ہو، وہ حق اور ہدایت پر نہیں ہوسکتا، خواہ اس کا تعلق پہلے کی امتوں سے ہو یا اس امت سے۔ پھر ان بدبخت لوگوں کے حق پر ہونے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ جو حضرات صحابہ کرام کے ایمان کو نمونہ و مثال بنانے کی بجائے الٹا ان پر طعن وتشنیع کے تیر برسائیں، تبریٰ کریں، اور طرح طرح سے ان کی توہین و تنقیص کا ارتکاب کریں۔ اور اس حد تک کہ کھلے کافر بھی نہ کرسکیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ اسی طرح وہ اہل بدعت بھی حق پر قرار نہیں دئیے جاسکتے جو کہ صحابہ کرام سے عشق و محبت کے دعوے کرنے کے باوجود عقیدہ و عمل کے دونوں میدانوں میں ان کے طور طریقوں سے ہٹے ہوئے ہوں، اور وہ ایسی ایسی بدعتوں، اور نت نئے طریقوں، کو دین میں شامل کر رہے ہوں، جن کا ضرورت اور داعیہ کے باوجود صحابہ کرام کے اس پاکیزہ دور میں کوئی ثبوت و وجود نہیں ملتا۔ اسی لئے نبئ اکرم ﷺ نے افتراق امت سے متعلق اپنی مشہور حدیث طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ کی توضیح میں ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے طور طریقے پر ہوں گے ـ ان کے سوا باقی کی تمام بہتر فرقے دوزخ میں ہونگی " کلہم فی النار الا واحدہ " اور اللہ کے رسول کے طریقے سے مراد ہے آپ کی سنت جو کتب حدیث میں تمام و کمال موجود و محفوظ ہے۔ سو آپ کی اور آپ کی ان قدسی صفت صحابہ کرام کی جماعت کو ماننے والے اور ان کے طریقہ پر چلنے والے لوگ ہی حق والے اور نجات کی حقدار ہیں خواہ وہ کوئی بھی ہوں، کہیں کے بھی ہوں، انہی کو جاتا ہے ۔ اہل السنۃ والجماعۃ ۔ یعنی جو آپ کی سنت کو بھی مانتے اور اپناتے ہیں اور آپ ﷺ صحابہ کرام کی پوری جماعت کو بھی کہ ان سب ہی حضرات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ ؓ و رضوا عنہ ۔ کا عظیم الشان اور بےمثال سرٹیفکیٹ مل چکا ہے۔ پس جو لوگ پیغمبر کی سنت کے منکر اور اس کی تارک ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ اور جو صحابہ کرام سے بغض وعناد رکھتے ہیں اور ان میں سے کچھ کا ماننے کا دعوی کرتے ہیں اور اس کے لئے اپنا معیار بناتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ اور جو سنت کے خلاف اپنی طرف سے طرح طرح کی بدعات و خرافات کو دین میں داخل کرتے ہیں اور اس دین کامل میں اپنی طرف سے طرح طرح کے اضافے کرتے ہیں وہ سب اسی سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں اور وہ دوزخ کی راہ پر چل رہے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر قائم رکھے ۔ آمین۔ 378 ضد اور ہٹ دھرمی باعث ہلاکت و محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ایسوں کا حق کی طرف لوٹنا بڑا ہی مشکل امر ہے۔ کیونکہ ضد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں۔ کیونکہ نور حق و ہدایت سے سرفرازی کیلئے اولین شرط اور بنیادی تقاضا ہے، طلب صادق اور رجوع الی الحق، اور اس سے یہ لوگ محروم ہیں، تو پھر ان کو حق و ہدایت کی دولت ملے تو کیسے اور کیونکر ؟ سو ضد اور ہٹ دھرمی باعث ہلاکت و محرومی ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ شقاق اس عداوت و دشمنی کو نہیں کہا جاتا جو حق کی بنا پر ہو یا معمولی نوعیت کی ہو بلکہ شقاق اس سخت قسم کی اور سنگین نوعیت کی عداوت و دشمنی کو کہا جاتا ہے جو ایسی بڑی مخالفت اور دشمنی ہو کہ وہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی عداوت و دشمنی میں ڈالنے والی ہو اور وہ اس کو اس کے غضب اور اس کی لعنت کا مستحق بنا دینے والی ہو اور اس سے انسان دوزخ کا مستحق بن جاتا ہو ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس ارشاد میں منکرین کے لیے بڑی وعید ہے اور اس لفظ سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ حق اور اہل حق کے خلاف اپنے دلوں میں سخت عداوت و دشمنی رکھتے ہیں۔ اور اسی بنا پر یہ ان کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کے درپے ہیں وہ یقینا سخت عناد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں۔ اسی لیے اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی تسکین و تسلی سے نوازا گیا ہے۔ (محاسن التاویل للقاسمی ) ۔ 379 اللہ تعالیٰ کی حمایت و کفایت کے بعد اور کسی کی ضرورت ہی نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کافی ہے آپ کو اللہ ان سب کے مقابلے میں۔ اور جب ان کے مقابلے میں اللہ آپ کو کافی ہوجائے جو کہ قادر مطلق بھی ہے اور سب کا خالق ومالک بھی۔ اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اور اس کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی جان بھی نہیں سکتا، تو پھر آپ ﷺ کو اے پیغمبر ان دشمنوں کی پرواہ ہی کیا ہوسکتی ہے ؟ ۔ صَلَوات اللہ وَسَلَامُہٗ علیہ ۔ پس جس کا تعلق اپنے خالق ومالک سے صحیح ہو اور اس کا بھروسہ و اعتماد اسی پر ہو۔ اس کے لئے فکر و تشویش کی کوئی بات نہیں۔ اللہ اپنے فضل و کرم سے اس کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔ مگر افسوس کہ آج کا جاہل مسلمان اور اپنے دین و ایمان کی قدر و قیمت سے غافل و بیخبر انسان، اس سیدھی اور صحیح راہ کو چھوڑ کر طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ قبروں آستانوں کے پھیرے مانتا، وہاں کے چکر لگاتا، بکرے چھترے کاٹتا، شرکیہ تعویز گنڈھے کرتا اور امام ضامن باندھنے جیسے شرک کا مرتکب ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ مگر اللہ پر بھروسہ رکھنے اور اس کی طرف توجہ کرنے کی توفیق اس کو نصیب نہیں ہوتی ۔ الا ماشاء اللہ ۔ تو پھر اس کی بگڑی بنے تو کیسے اور کیونکر ؟ ۔ اللہم فکن لنا ولا تکن علینا وخذ بنواصینا الی ما فیہ حبک ورضاک ۔ بہرکیف قرآن وسنت کی تعلیم یہی ہے کہ دل کا بھروسہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی پر ہو ۔ وباللہ التوفیق ۔ 380 اللہ تعالیٰ ہر کسی کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہی ہے سننے اور جاننے والا سو وہی وحدہ لاشریک ہے جو ہر کسی کی سنتا اور ہر حال میں سنتا ہے، اور ہر شے اور ہر حال کو جانتا اور پوری طرح جانتا ہے۔ قرآن حکیم میں اس حقیقت کو جا بجا اور طرح طرح سے بتاکید و تکرار بیان فرمایا گیا ہے، کیونکہ اس ایمان و یقین کے پختہ ہوجانے کے بعد بہت سے دروازے شرک و شرکیات کے خود بخود بند ہوجاتے ہیں، مگر جاہل انسان کا حال کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے، کہ وہ اس وحدہ لاشریک کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کر کے طرح طرح کے شرکیہ فلسفے بگھارتا ہے، جیسے یہ کہ بھئی تم جب دنیاوی بادشاہوں وغیرہ میں سے کسی سے بلاواسطہ اور براہ راست نہیں مل سکتے، تو اللہ سے کیسے ملو گے ؟ اور اگر کسی حاکم و بادشاہ کے پاس تم پہنچ بھی گئے تو تمہاری وہاں کوئی شنوائی نہیں ہوگی، جب تک کہ تم کوئی وسیلہ نہ پکڑو۔ تو پھر تم اللہ تعالیٰ سے براہ راست اور بلاواسطہ کیسے مل سکتے ہو ؟ لہذا وہاں بھی ایسے واسطوں کا ہونا ضروری ہے، جن کے ذریعے ہم اپنی دعاء والتجاء اس تک پہنچا سکیں۔ ہماری ان کے آگے اور ان کی ان کے آگے۔ وہ ہماری سنتا نہیں، اور ان کی رد نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ تمام مفروضے خود ساختہ اور بےبنیاد ہیں، اور ان کی اور اس طرح کے دوسرے تمام مفروضوں کی بنیادی غلطی اور اساسی خرابی یہ ہے کہ ان میں حضرت حق ۔ جَلَّ جَلَالُہَ ۔ کو مخلوق پر قیاس کیا گیا ہے، حالانکہ وہ وحدہ لاشریک خالق اور دائرہ مخلوق سے وراء الوراء ہے۔ اسی لئے اس کے لئے ازخود مثالیں بنانے سے صاف اور صریح طور پر منع فرمایا گیا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ { فلَاَ تَضْرِبُوْا للّٰہُ الاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ } ۔ (النحل : 74) پس اللہ تعالیٰ کیلئے ازخود مثالیں گھڑنا درست نہیں۔ کیونکہ انسان اپنے طور پر جو بھی کوئی مثال پیش کرے گا وہ مخلوق ہی کی مثال ہوگی کہ اس کی کھوپڑی مخلوق اور محدود ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ خالق اور مخلوق کے دائرہ سے وراء الوراء ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس کو اسی طرح مانا جائے جس طرح کہ اس نے اپنے بارے میں خود بتایا ہے اور جس طرح کہ اس کے رسول نے بتایا ہے اور بس۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور پیغمبر کا بیان اللہ ہی کا بیان ہوتا ہے۔ 381 اللہ کا رنگ اپنانے کی تعلیم و تلقین : یعنی { صبغۃ اللہ } کا ناصب محذوف ہے جس سے اللہ کے رنگ کو اپنانے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے کہ رنگ اللہ ہی کا رنگ ہے جو چڑھتا ہے دلوں کی دنیا پر۔ سو ایمان و یقین کا یہ رنگ ایک انقلاب آفریں رنگ ہے جو کہ چڑھتا ہے اپنی اصل و اساس کے اعتبار سے سلطان دل پر۔ اور پھر اس کے خوشبوئیں بکھیرتے اور رحمتیں پھیلاتے آثار و نتائج ظاہر ہوتے ہیں اعمال و کردار کے ہر دائرے میں۔ اور اس طرح وہ معنوی اور پاکیزہ رنگ، اپنی عطر بینریوں سے زندگی کے تمام پہلوؤں پر ایسا حاوی اور محیط ہوجاتا ہے کہ انسان کو کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔ اور اس کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے کہ وجود انسانی کی اس اہم سلطنت کا بادشاہ تو دل ہی ہے۔ وہ جس بھی رنگ میں رنگا جائے گا، اسی کے آثار و نتائج اس کے ظاہر پر ہویدا ہوں گے۔ اگر سلطان دل کا یہ رنگ صحیح ہوا تو اس کے اثرات اس کے ظاہر پر، اور معاشرے میں ہر طرف، پھیلیں گے اور حیات طیبہ " پاکیزہ زندگی " کا دور دورہ ہوگا۔ اور اگر خدانخواستہ معاملہ دوسرا ہوا تو اس کے نتیجے میں شر انگیزی کے زہریلے دھوئیں پھیلیں گے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ اسی کو نبوت کی لسان حق ترجمان نے اس طرح بیان فرمایا ہے " آگاہ رہو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ایسا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ درست ہوا تو پورا جسم درست رہے گا۔ اور اگر وہ خراب ہوگیا تو پورا جسم خراب ہوجائیگا۔ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے "۔ یہود و نصاریٰ اپنے بچوں کو اور اپنے دین میں داخل ہونے والے کسی نئے شخص کو ایک خاص قسم کے رنگ سے رنگتے اور کہتے کہ اب یہ اس دین میں پکا ہوگیا ہے۔ اس کو وہ " بپتسمہ " کہتے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اس طرح کے ظاہری اور خود ساختہ بناوٹی رنگوں سے کچھ نہیں بنتا۔ بلکہ اصل اور حقیقی رنگ اپناؤ جو کہ ایمان و یقین کا وہ معنوی اور حیات آفریں رنگ ہے جو دل پر چڑھتا ہے۔ اور پھر وہ انسان کے ظاہر و باطن میں انقلاب برپا کردیتا ہے۔ سو فکر اس کی کرو نہ کہ ان ظاہری رسوم و رواج کی۔ یہاں سے یہ اہم اصول اور ضابطہ ملا کہ اسلام کی نظر میں اصل اہمیت قلب و باطن کی ہے نہ کہ محض ظاہری رسوم و طقوم کی۔ کیونکہ باطن اگر سنور جائے تو ظاہر کی اصلاح خود بخود ہوتی جاتی ہے، مگر افسوس کہ آج مسلمان کہلانے والوں میں بھی کتنی ہی تعداد ایسوں کی ہے جن کی ساری تگ و دو کا محور و مرکز ظاہر اور صرف ظاہر ہے۔ وہ قسما قسم کے رنگ بدلتے، خاص پٹے ڈالتے، طرح طرح کی بناوٹیں اپناتے، اور الگ الگ ٹولیاں بناتے، نیلی پیلی خاص سٹائل کی پگڑیاں باندھتے، قطع نظر اس سے کہ پیغمبر ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کا اسوہ کیا ہے، اور دین کی سچی تعلیمات کیا کہتی ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔
Top