Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 208
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِي : میں السِّلْمِ : اسلام كَآفَّةً : پورے پورے وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْا : نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو داخل ہوجاؤ تم اسلام کے حظیرہ قدس میں پورے کے پورے اور خبردار شیطان کی پیروی نہیں کرنا کہ بیشک وہ تمہارا دشمن ہے کھلم کھلا
574 اسلام کے حظیرہ قدس میں پورے کے پورے داخل ہونے کا حکم و ارشاد : سو ایمان والوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اسلام میں داخل ہوجاؤ پورے کے پورے۔ اپنے عقیدہ و عمل اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے۔ اور زندگی کے تمام احکام و مسائل میں اسلام ہی کی طرف رجوع کرو۔ یہ نہیں کہ کچھ احکام یہاں سے لو، اور کچھ وہاں سے، اور کسی کام کیلئے ادھر رجوع کرو، اور کسی کے لئے ادھر۔ روایات میں ہے کہ اہل کتاب میں سے بعض حضرات نے ایمان لانے کے بعد ایک موقع پر آنحضرت ﷺ سے یہ درخواست کی کہ اگر ہم تورات کے بھی کچھ ایسے احکام پر عمل کرلیں جو کہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں ہیں، تاکہ اس طرح دونوں کتابوں پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کرلیں، تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا ؟ مثلاً یہ کہ شریعت موسویہ کے مطابق سبت کی بھی تعظیم کرلیا کریں، اونٹ کا گوشت کھانے، اور دودھ پینے، سے بھی پرہیز کریں، اور تورات کی بھی تلاوت کرتے رہیں، وغیرہ۔ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، جس میں بتادیا گیا کہ ایسے کسی خیال کی دین حق اسلام میں کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ دین ہر طرح سے کامل و مکمل ہے۔ لہذا اس میں اس طرح کی کسی بھی پیوندکاری کی نہ کوئی ضرورت ہے، نہ گنجائش، بلکہ سعادت اور نجات کی صرف ایک ہی راہ ہے، کہ اسلام میں داخل ہونا ہے تو پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور اس میں کسی بھی طرح کی کسی آمیزش اور پیوند کاری کا سوچو بھی نہیں۔ پس دین حق اسلام میں کسی طرح کے دوسرے نظریات کی پیوندکاری کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ گنجائش۔ اور آج جو لوگ نئے نئے نعرے لگا کر اپنی سیاسی دکانداری چمکا رہے ہیں، مثلاً یہ کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، اور سوشلزم ہماری معیشت ہے، وغیرہ۔ تو وہ سب کچھ اس ارشاد ربانی کے خلاف ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ بندوں سے یہی مطلوب ہے کہ وہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 575 شیطان انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ یقینا وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے کہ اس نے اپنی انسان دشمنی کو چھپایا نہیں، بلکہ علی الاعلان اسکا اظہار کیا، اور حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کے سامنے کہا اور اس کی عزت کی قسم کھا کر کہا کہ " میں ان سب کو گمراہ کر کے چھوڑونگا، بجز تیرے ان چنے ہوئے خاص بندوں کے جن پر میرا زور نہیں چل سکے گا " کہ وہ تو بہرحال میرے حملوں اور میرے اغواء واضلال کے پھندوں میں نہیں پھنسیں گے، ورنہ باقی کسی کو نہیں چھوڑوں گا جیسا کہ سورة صٓ میں اس بارے ارشاد فرمایا گیا ۔ { قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ ، اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ } ۔ (صٓ: 82-83) ۔ سو اطاعت کامل کا یہی راستہ امن و سلامتی کا راستہ ہے، اور جو لوگ اس کو چھوڑ کر کوئی اور راہ نکالنا چاہتے ہیں، اور وہ بیک وقت کفر اور اسلام دونوں سے راہ و رسم رکھنے کے خواہش مند ہیں، وہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہیں، اور شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اس لیے اس نے روز اول ہی سے اس کی راہ مارنے اور گمراہ کرنے کا کھلم کھلا الٹی میٹم دے رکھا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top