Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 226
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ١ۚ فَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو يُؤْلُوْنَ : قسم کھاتے ہیں مِنْ : سے نِّسَآئِهِمْ : عورتیں اپنی تَرَبُّصُ : انتظار اَرْبَعَةِ : چار اَشْهُرٍ : مہینے فَاِنْ : پھر اگر فَآءُوْ : رجوع کرلیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس جانے سے قسم کھا بیٹھتے ہیں، ان کے لئے مہلت ہے چار مہینے کی، سو اگر انہوں نے (اس مدت کے اندر) رجوع کرلیا تو (ان کا نکاح باقی، قسم توڑنے کا کفارہ لازم، اور گناہ معاف، کہ) بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے ولا نہایت ہی مہربان ہے،
628 " اِیلاء " کا معنیٰ و مفہوم اور اسکا حکم ؟: ۔ شریعت کی اصطلاح میں اس طرح کی قسم کو " ایلاء " کہا جاتا ہے کہ مرد اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھالے۔ پس اگر اس کے پاس نہ جانے کی یہ مدت چار ماہ یا اس سے زیادہ کی ہو۔ یا کسی تعیین و تحدید کے بغیر ہو۔ تو اس کا حکم یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے پر طلاق بائن واقع ہو جائیگی، اور اس کی بیوی اس سے الگ ہو جائیگی۔ اور اگر چار ماہ سے کم کی مدت ہو تو یہ " منعقدہ " کے حکم میں ہوگی۔ اس مدت کے اندر اگر بیوی سے رجوع کرلیا تو کفارہ یمین ادا کرنا پڑیگا۔ اور اگر چار ماہ سے کم کی صورت میں اس نے رجوع نہیں کیا، اور وہ مدت پوری ہوگئی تو بغیر کفارہ یمین کے بیوی اس کے پاس رہے گی، اور کوئی طلاق وغیرہ نہیں واقع ہوگی۔ کیونکہ طلاق ہوتی ہے چار ماہ کی مدت پر۔ اور کفارہ ہوتا ہے " حنث " یعنی قسم توڑنے پر۔ اور یہاں ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں پائی گئی، قسم توڑنے اور کفار ادا کرنے پر اللہ ان کو معاف فرما دے گا کہ وہ بڑا ہی غفور اور رحیم ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top