Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
حفاظت کرو تم لوگ اپنی نمازوں کی اور خاص کر درمیانی نماز کی اور کھڑے رہا کرو تم لوگ اللہ کے حضور عاجزانہ طور پر2
685 صلوۃ وسطیٰ سے مراد ؟ : " صلوۃ وسطیٰ " (درمیانی نماز) سے مراد جمہور کے نزدیک نماز عصر ہے (روح، المراغی، المعارف، وغیرہ) ۔ یہاں پر نکاح اور طلاق وغیرہ کے مسائل کے درمیان میں نماز کی محافظت کا جو حکم و ارشاد فرمایا جا رہا ہے، اس سے نماز کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نیز اس سے دو اور بڑے اہم درس مستفاد ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ دنیاوی امور و معاملات میں مشغول ہو کر فریضہ نماز سے غفلت نہیں برتنا، کہ فریضہ ٔ نماز میں تمہارے لئے دارین کی سعادت مضمر ہے۔ اور اس سے اعراض و محرومی ۔ والعیاذ باللہ ۔ طرح طرح کے مفاسد و مہالک کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور دوسرا یہ کہ فریضہ نماز کی کماحقہ ادائیگی اور پابندی خود ہمارے لئے عام دنیوی معاملات کی اصلاح و سازگاری میں بھی ممد و معاون ہے۔ سو اس کی محافظت و مواظبت سے ہماری مشکلات آسان ہوتی ہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا { وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْر وَالصَّلٰوۃ } " اور مدد حاصل کرو صبر اور نماز کے ذریعے "۔ اسی لئے نماز کو امور مصلحہ میں اہم اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسی بنا پر امیرالمومنین حضرت عمر ؓ نے اپنے دور حکومت میں یہ فرمان جاری فرمایا تھا کہ " تمہارے امور میں میرے نزدیک سب سے اہم امر نماز ہے، جس نے اس کی حفاظت کی وہ باقی کاموں کی بطریق اولیٰ حفاظت کریگا، اور جس نے اس میں کوتاہی برتی، وہ باقی امور میں اور بھی زیادہ کوتاہی سے کام لیگا " ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو نماز انسانی زندگی کی شیرازہ بندی کی اہم اور مقدس اساس ہے۔ اس لیے اس کو قائم رکھنے کی بار بار تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ 686 نماز کے بارے میں ایک خاص حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا اور کھڑے رہا کرو تم اللہ کے حضور عاجزانہ طور پر۔ یعنی خاموشی اور سکون کے ساتھ کھڑے رہا کرو۔ بخاری مسلم وغیرہ کی روایت کے مطابق حضرت زید بن ارقم ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نماز کے اندر بولا کرتے تھے، یہاں تک کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو ہمیں نماز میں بولنے سے منع فرما دیا گیا۔ " قنوت " کے اصل معنی " خضوع " اور " تذلل " کے ہیں۔ سو " قانتین " کے معنی ہوں گے کہ پورے خضوع و تذلل اور عجز و نیاز کے ساتھ اپنے خالق ومالک کی بارگہ اقدس میں کھڑے رہا کرو۔ سو نماز کی محافظت کے حکم میں اسکا یہ ادب بھی داخل ہے۔ پس تم لوگ عجز و نیاز کی تصویر بن کر، نہایت ادب و احترام اور خضوع و تذلل کے ساتھ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوا کرو ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو نماز میں انسان پورے ادب و احترام کے ساتھ کھڑا ہو اور اس کے آداب و ارکان کا پورا پورا خیال رکھے۔ نہ کسی سے بولے اور نہ آگے پیچھے دیکھے۔ اور اس کو اپنے اوقات میں پابندی والتزام کے ساتھ ادا کرے۔ اور جب تم اس طرح نماز کا خیال رکھو گے اور اس کی حفاظت کرو گی تو یہ تمہارا خیال رکھے گی اور تمہاری حفاظت کرے گی۔ جیسا کہ حضرات اہل علم نے اس کی تصریح فرمائی ہے ( المعارف للکاندھلوی وغیر ذلک ) ۔ سو نماز ایک عظیم الشان عبادت اور مناجات خداوندی کی ایک جلیل القدر شکل ہے۔ اس لیے اس کے تقاضوں کا پوری طرح خیال رکھنے اور اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل -
Top