Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى : پھر حاصل کرلیے اٰدَمُ : آدم مِنْ رَّبِهٖ : اپنے رب سے کَلِمَاتٍ : کچھ کلمے فَتَابَ : پھر اس نے توبہ قبول کی عَلَيْهِ : اس کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِیْمُ : رحم کرنے والا
پھر سیکھ لئے آدم نے کچھ کلمے اپنے رب کی طرف سے تب اس (کے رب) نے اس کی توبہ قبول فرما لی بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے2
115 آدم کے کلمات توبہ سے مراد ؟ : سو حضرت آدم کو کلمات توبہ کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی تاکہ وہ انکے ذریعے رب کی طرف رجوع کرسکیں، سو یہ اس وحدہ لا شریک نے اپنی شان کرم اور اپنی اس رحمت و عنایت کی بناء پر جو کہ اس کو اپنے بندوں سے ہے، حضرت آدم کو القاء والہام فرمادیئے تھے، تاکہ حضرت آدم ان پاکیزہ کلمات کے ذریعے اس کے حضور توبہ اور معافی کی درخواست پیش کرسکیں، چناچہ آدم نے ایسے ہی کیا، جس پر رحمت خداوندی نے ان کو پھر اپنی آغوش میں لے لیا، جیسا کہ { َتَابَ عَلَیْہ } کی تصریح سے ظاہر ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ وہ کلمات کونسے اور کیا تھے ؟ تو سورة اعراف کی تیئسویں آیت کریمہ میں خود حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے ان کو بیان فرما دیا گیا ہے، کہ وہ { رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا } الخ کے دعائیہ کلمات تھے۔ جمہور علماء و مفسرین کرام کا قول یہی ہے، جیسے مجاہد، سعید بن جبیر، ابوالعالیہ، ربیع ابن انس اور قتادہ، وغیرہ۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیرابن کثیر، محاسن التاویل، جامع البیان، صفوۃ التفاسیر، اور صفوۃ البیان، وغیرہ) ۔ اسی لئے علامہ رشید رضا مرحوم نے جزم و یقین کے ساتھ اسی قول کو اختیار کیا ہے، ملاحظہ ہو تفسیرالمنار) ۔ اس ذیل میں بعض تفاسیر میں جو بعض دوسری دعاؤں کا ذکر آتا ہے، تو وہ محض تکمیل و تذییل کا درجہ رکھتی ہیں، جن کو اس دعاء کے ساتھ شامل کیا جاسکتا ہے، ورنہ اصل دعا یہی ہے۔ اس ضمن میں مستدرک حاکم کے حوالے سے جو روایت " یَارَبّ اَسْاَلُکَ بِحَقّ مُحَمَّد ٍ " کے الفاظ کے ساتھ بعض کتابوں میں وارد و مذکور ہوئی ہے، اور اہل بدعت نے اپنی طبعی افتاد کے مطابق اسی کو یہاں پر مدار قرار دیا ہے، تو وہ روایت محققین کے نزدیک ضعیف اور واہی روایت ہے۔ بلکہ جرح و تعدیل کے مشہور و معروف اور مسلم امام، امام ذہبی (رح) نے اس کو موضوع قرار دیا ہے " قُلْتُ بَلْ مُوْضُوْعٌ " تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " قَاٍعِدَۃٌ جَلِیْلَۃٌ فِی التَّوَسُّل وَ الْوَسِیْلَۃ " لشیخ الاسلام ابن تیمّیہ (رح) ۔ سو کلمات توبہ سے مراد وہی کلمات ہیں جن کا ذکر سورؤ اعراف میں فرمایا گیا ہے۔ 116 آدم کی توبہ کی قبولیت کا بیان : اور اس طرح خصوصی رحمت و عنایت کا جو سلسلہ آپکی لغزش کی بنا پر آپ سے کٹ گیا تھا، وہ دوبارہ بحال فرما دیا گیا، کیونکہ توبہ کے معنی ہی لوٹنے اور واپس ہوجانے کے ہیں۔ سو بندہ جب اپنے کئے پر نادم ہو کر اپنے رب کے حضور معافی مانگنے کے لئے سچے دل سے لوٹتا اور رجوع کرتا ہے، تو اس کا رب کریم بھی اپنی رحمت بےنہایت اور عنایت بےغایت کی بناء پر اس پر پھر رجوع فرما لیتا ہے، اور اس کو دوبارہ اپنی رحمت کے آغوش میں لے لیتا ہے، کہ اس کی شان ہی نوازنا اور کرم فرمانا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو توبہ کا دروازہ ایک عظیم الشان دروازہ ہے جسکے ذریعے بندہ اپنے رب کے حضور رجوع کرتا ہے، اور اپنے گناہوں کی معافی اور اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے شرف سے مشرف و سرفراز ہوتا ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں کی میل سے پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا " اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْب کَمَنْ لا ذَنْبَ لَہ " ۔ سو توبہ و استغفار قدرت کی طرف سے بندوں کے لیے ایک عظیم الشان عطیہ و احسان ہے گناہوں کی میل کے ازالے کے لیے۔ ورنہ ہم جیسے گنہگار انسان کیا کرتے ۔ فاستغفر اللہ الذی لا الہ الا ہو الحی القیوم واتوب الیہ ۔ 117 اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے : اتنا بڑا توبہ قبول کرنے والا کہ زندگی بھر کے گناہوں کی میل سچی توبہ سے اسطرح مٹا دیتا ہے کہ گو یا اس تائب صادق نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں تھا۔ جیسا کہ ارشاد نبوی میں فرمایا گیا : " التَّائِبُ مِنْ الذَّنْب کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ " اگرچہ گنہگار کے گناہوں کے انبار آسمان کی بلندیوں کو ہی کیوں نہ چھور ہے ہوں، جیسا کہ صحیحین وغیرہ کی صحیح احادیث میں وارد ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سچی توبہ اور ایمان و عمل صالح کے نتیجے میں وہ گناہوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل فرما دیتا ہے جیسا کہ سورة فرقان کی سترویں آیت کریمہ میں اس کا صریح ذکرو اعلان فرما دیا گیا ہے۔ سبحان اللہ ! کیا کہنے اس کی شان کرم اور رحمت بےنہایت کے ۔ جلَّ جَلَا لُہَ وَ عّم نوالہ ۔ مگر توبہ کی اس عظمت شان اور بخشش و مغفرت کے اس اعلان و فرمان کے بارے میں یہ بات بھی واضح رہے کہ اس میں دو بنیادی شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ وہ شخص شرک اور اس کے شوائب سے پاک اور بری ہو، کیونکہ احادیث شریفہ میں " لایشرک بی شیئا "، " وہ میرے ساتھ شرک نہ کرتا ہو " کی تصریح اس ضمن میں موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ توبہ صحیح معنوں میں اور سچی اور حقیقی توبہ ہو، جس کو " توبہ نصوح " بھی فرمایا گیا ہے۔ محض توبہ کی ظاہری شکل یا کچھ رٹے رٹائے الفاظ کا بےسوچے سمجھے ورد و تکرار کافی نہیں اور محض ایسا کرنے سے، یہ مقصد عظیم حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور سچی توبہ کے بنیادی طور پر چار ارکان ہیں۔ اول ندامت، کہ انسان اپنے کئے پر سچے دل سے نادم اور شرمندہ ہو، کہ میں نے ایسے کیوں کیا ؟ دوم یہ کہ وہ اس گناہ کو چھوڑ کر اس سے علیحدہ اور کنارہ کش ہوجائے، یہ نہیں کہ گناہ کی میل میں تو اسی طرح ملوث رہے اور زبان سے میری توبہ، میری توبہ یا رب، کی رٹ لگائے جا رہا ہو، اور تیسرے یہ کہ دل سے یہ پکا اور پختہ عزم و ارادہ کرے کہ آئندہ یہ کام نہیں کرونگا، اور دلوں اور نیتوں کا معاملہ چونکہ اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، اس لئے وہاں محض ظاہرداری سے کام نہیں چلے گا، بلکہ دلوں کا معاملہ اس وحدہ لاشریک کے ساتھ صحیح رکھا جائے اور صدق دل سے توبہ کی جائے، اور توبہ کی چوتھی شرط یا چوتھا رکن یہ ہے کہ اس کے ذمے جو حقوق واجب الاد ہوں، ان کو وہ پورا پورا ادا کر دے، کہ دین اصل میں نام ہی ادائیگی حقوق کی تعلیم کا ہے۔ سو ان آداب و شرائط کی اس طرح رعایت کے ساتھ جو توبہ کی جائے گی، وہ انشاء اللہ سچی توبہ ہوگی، اور اس کی قبولیت کی حضرت حق جل مجدہ کی رحمت سے بھر پور امید رکھنی چاہیئے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ اللہ میرے تمام صغیرہ و کبیرہ اور ظاہر و پوشیدہ گناہوں کو معاف فرما دے۔ آمین۔ 118 اللہ بڑا ہی مہربان ہے : یعنی وہ صرف گناہوں ہی کو معاف نہیں فرماتا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنی رحمتوں اور عنایتوں سے بھی نوازتا ہے، کیونکہ وہ " توّاب " کے ساتھ ساتھ " رحیم " بھی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور ایسا رحیم کہ اس کی رحمتوں کا کوئی کنارہ نہیں ہے۔ سو کس قدر محروم اور بدنصیب ہیں، وہ لوگ جو اس بےنہایت رحمتوں والے خداوند قدوس سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ اس لیے بندے کا کام اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے رب کی طرف رجوع رہے، اپنی کوتاہیوں اور تقصیرات سے اپنے رب غفور و تواب سے معافی بھی مانگتا رہے، اور اس سے اس کی رحمت و عنایت کی دعاء و درخواست بھی کرتا رہے۔ سو بندوں کے لئے صحت و سلامتی کی راہ یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے خالق ومالک کی طرف متوجہ رہیں اور اس سے رحمت و عنایت کی دعاء و درخواست کرتے رہیں۔ اور اس سے اس کی رحمت ہی کی امید رکھیں کہ اس کا کام اور اس کی شان ہی نوازنا اور رحمت فرمانا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ فاغفرلی وارحمنی یا ارحم الراحمین۔
Top