Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے کہا تم اتر جاؤ یہاں سے سب کے سب پھر اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جس نے (صدق دل سے) پیروی کی میری ہدایت کی تو ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے
119 بندوں کیلئے ہدایت کا وعدہ و اعلان : یعنی ایسی ہدایت جو میرے انبیاء ورسل کے واسطے سے تم لوگوں تک پہنچے، جس کا انتظام تمہاری بہتری و بھلائی اور رہنمائی کے لئے بہرحال کیا جائے گا، کیونکہ اپنے بندوں کیلئے راہ حق و ہدایت کو واضح کرنے کا ذمہ ہم نے خود لے رکھا ہے۔ چناچہ دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔ { اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدَی وَ اِنَّ لَنَا لَلآخِرَۃَ وَالاوْلَی } ۔ (اللیل : 12- 13) اور ہدایت خداوندی کا نور ہی وہ نور ہے جو انسان کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و بہرہ ور کرتا ہے، اور اس کے بغیر انسان کیلئے اندھیرا ہی اندھیرا اور محرومی ہی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور ہدایت کی ضرورت انسان کو کھانے پینے کی ظاہری اور جسمانی ضرورتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور جب اس قادر مطلق نے انسان کی جسمانی اور ظاہری ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ایسا حکمتوں بھرا انتظام فرمایا تو یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی روحانی اور معنوی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ہدایت کا انتظام نہ فرماتا۔ سو اس رب رحمن و رحیم نے اس کا بتمام و کمال انتظام فرمایا ۔ فللہ الحمد رب العالمین ۔ 120 ھدی و ھوی کے دو راستوں کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ انسان کے سامنے " ھدٰی " اور " ھویٰ " کے دو راستے : سو حق اور ھدی کی پیروی کرنے والوں کے لئے خوف و اندیشہ، اور حزن وملال سے دوچار نہ ہونے کی یہ عظیم الشان خوشبخری عام اور مطلق ہے، کسی خاص وقت یا خاص مرحلے کی تقیید و تحدید کا کوئی ذکر اس میں نہیں۔ پس یہ اپنے عموم و اطلاق پر ہے، اور اہل حق مراتب و درجات کے تفاوت کے ساتھ اس سے ہمیشہ ہی سرشار و شاد کام رہتے ہیں، اور رہیں گے، کیونکہ خوف و اندیشہ جو آئندہ کے بارے میں ہوتا ہے، کہ ایسے ہوجائے اور ایسے نہ ہوجائے وغیرہ۔ تو مومن صادق اپنے ایمان و یقین کی قوت کی بنا پر اس سے محفوظ ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس ایمان و یقین سے سرشار ہوتا ہے کہ جو ہونا ہے وہ بہرحال ہو کر ہی رہے گا، تو کسی اور سے ڈرنے اور اندیشہ رکھنے کی نہ ضرورت ہے، نہ کوئی وجہ، بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرو، اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ اور دوسری طرف وہ اپنے اس عقیدہ و ایمان کی بنا پر ہمیشہ مطمئن رہتا ہے، کہ میرا رب چونکہ رحمن و رحیم ہے، لہذا وہ میرے لئے جو بھی کچھ کرے گا، اس میں میری بہتری اور بھلائی ہی ہوگی، خواہ مجھے سمجھ آئے یا نہ آئے، کیونکہ وہ پوری طرح جانتا بھی ہے، اور سنتا دیکھتا بھی۔ پس میرا تعلق اس وحدہ لاشریک کے ساتھ صحیح اور مضبوط رہنا چاہیئے، سو اپنے اس ایمان و یقین کی بنا پر، مومن صادق مصائب میں مبتلا ہونے کے دوران بھی، مطمئن اور خوش باش رہے گا، اور اس طرح اجر وثواب کی جو دولت وہ جمع کرتا جاتا ہے، وہ اس کے علاوہ ہوتی ہے۔ سبحان اللہ ! کیا دولت ہے عقیدہ و ایمان صادق کی یہ دولت جو انسان کو مصائب و مشکلات کے بھنور میں بھی ہنستا مسکراتا بنا دیتی ہے، جبکہ اس سے محروم انسان دنیا کی ظاہری اور مادی نعمتوں کی ہر طرح کی فراوانی و بھرمار اور جملہ آسائشوں کے باوجود، امن و سکون کی نعمت سے محروم اور دل کی گھٹن اور تنگی کا شکار رہتا ہے، جسکے لئے وہ طرح طرح کے مصنوعی ذرائع و وسائل کا سہارا لیتا ہے۔ پھر مومن صادق دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی اندیشہ مستقبل اور غم ماضی کے بارگراں سے سبکسار، لذت ایمان سے سرشار اسطرح رخصت ہوتا ہے کہ " چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست " کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے، کیونکہ ماضی کے بارے میں اس کو یہ افسوس نہیں ہوتا کہ میں نے متاع زندگی کو بےراہ روی میں گزارا بلکہ وہ مسرور اور مطمئن ہوتا ہے کہ مجھے زندگی میں متاع ھدیٰ کی اِتّباع کی سعادت حاصل رہی جس کے ثمرات سے میرا رب مجھے اب پوری طرح نوازیگا، اور ملائکہ رحمت زندگی کے اس پورے سفر کے دوران ایسے خوش نصیبوں کو { اَلاَّ تَخَافُوْا وَلا تَحْزَنُوْا } کی کیف آور لوریاں دیتے رہیں گے، اور پھر خوف و اندیشیہ اور حزن و ملال سے محفوظ رہنے کی اس عظیم الشان خوش خبری کا اصلی ظہور ان کے حق میں آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں ہوگا جہاں ہر انسان کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بلا کم وکاست پورا پورا صلہ و بدلہ ملے گا، اور وہ وہاں پر اس سب سے بڑی گھبراہٹ یعنی " فَزع اکبر " کی ہولنا کیوں سے بھی محفوظ رہیں گے، جس نے ابناء کفر و ضلال کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہوگا ۔ وَالْعِیَاذ باللہ العظیم ۔ اور اللہ پاک کے نوری فرشتے بڑھ بڑھ کر ان کا استقبال کرتے، ان کو سلام پیش کرتے، اور ان کو خوشخبریاں دے رہے ہوں گے، جیسا کہ سورة انبیاء میں ارشاد فرمایا گیا، { لاَیَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الاَکْبَرُ وَتَتَلَقّٰہُمُ الْمَلٓئِکَۃُ ہٰٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدوْنَ } (الانبیاء : 103) ۔ یعنی " ان کو (قیامت کے دن کی) وہ سب سے بڑی گھبراہٹ بھی پریشان نہیں کرسکے گی، اور فرشتے وہاں بڑھ بڑھ کر ان کو لے رہے ہوں گے (اور ان کے سرور کو دوبالا کرنے کے لئے ان سے کہا جارہا ہوگا کہ) یہی ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا " اور جیسا کہ سورة نمل میں فرمایا گیا ہے کہ " وہ اس دن گھبراہٹ سے امن میں ہو نگے " { وَہُمْ مِنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ } (نمل : 89) اسطرح ان خوش نصیب بندگان خدا کے حق میں اندیشہ و خوف اور حزن و ملال سے محفوظ رہنے کی اس عظیم الشان خوشبخری کا کامل ظہور آخرت میں اس روز ہوگا، جو کہ کشف حقائق، ظہور نتائج اور مشاہدئہ غیوب کا دن ہوگا۔ وہاں اگر ان کو کوئی غم اور افسوس کسی درجہ میں ہوگا بھی تو وہ صرف اس بات کا ہوگا کہ انہوں نے اس یوم عظیم کے لیے اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ کمائی کیوں نہ کی۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں حضرت نبی معصوم ۔ (علیہ الصلوۃ والسلام) سے۔ اسطرح وارد و منقول ہے۔ اللہ تعالیٰ زندگی کے ہر لمحے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
Top