Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل یاد کرو تم میرے طرح طرح کے ان احسانوں کو جو میں نے تم پر کئے ہیں اور پورا کرو تم میرے عہد کو میں پورا کروں گا تمہارے عہد کو اور تم خاص مجھ ہی سے ڈرو4
122 اسرائیل کا معنیٰ اور اس لفظ سے خطاب کرنے کی وجہ ؟ : اسرائیل دراصل عبرانی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی عبداللہ کے آتے ہیں، یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا دوسرا نام ہے اور یعقوب کی بجائے اس نام کے ذریعے خطاب کرکے دراصل بنی اسرائیل کو اس عقیدئہ توحید کی یاد دہانی کرائی جارہی ہے، جس کی دعوت حضرت یعقوب زندگی بھر دیتے رہے، مگر بنی اسرائیل نے بعد میں طرح طرح کی شرکیہ آمیزشوں سے بگاڑ کر اسے کچھ کا کچھ بنادیا تھا۔ اور اسطرح عقیدئہ توحید کی اس اصل اساس و بنیاد ہی کو ان لوگوں نے بدل کر رکھ دیا تھا جس پر دین کی پوری عمارت کا مدارو انحصار ہے، اور اس طرح ان ناہنجاروں نے دین توحید کو دین شرک بنادیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ " ہوس دنیا " اور " صاحبزادگی " کے مرض کے نتائج اسی طرح کے گل کھلاتے ہیں۔ اس طرح اس میں ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑا درس عبرت و بصیرت ہے جنہوں نے آج اپنے دنیوی مفادات، وقتی فائدوں، اور گدی نشینیوں وغیرہ کے کاروبار کے لئے دین میں طرح طرح کی بدعات و خرافات کا بازار گرم کر رکھا ہے جس سے یہ لوگ دنیا کو راہ حق سے ورغلاتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْمَ- 123 تذکیر نعمت برائے شکر نعمت کا درس : سو اس طرح تم لوگ میرے ان طرح طرح کے احسانات اور قسما قسم کی نعمتوں کو یاد کرو، جن سے میں نے تمہیں نوازا، تاکہ اسطرح تم اپنے منعم کا حق پہچان کر، راہ راست کو اپنا سکو، اور خود اپنے بھلے کا سامان کرسکو، اور اس شکر نعمت کے تقاضے کے طور پر تم میرے بھیجے ہوئے آخری پیغمبر محمد ﷺ پر ایمان لاؤ، جس کا سراپا تم لوگ اپنی کتابوں میں لکھا پاتے ہو، سو نعمت کی تذکیر و یاددہانی اس اعتبار سے ایک اہم مطلوب ہے کہ اس سے شکر نعمت کی تحریک ہوتی ہے، اور شکر نعمت بذات خود ایک عظیم نعمت ہے کہ اس نعمت سے اضافہ بھی نصیب ہوتا ہے اور برکت بھی ملتی ہے، اور نعمت کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں کفران نعمت محرومی اور زوال نعمت کا باعث ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ ارشاد ہوتا ہے : ۔ { اذ تاذن ربکم لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید } ۔ ( ابراہیم : ) ۔ 124 اللہ ہی سے ڈرنے کا درس : کہ وہی خالق ومالک اسکا اصل حقدار ہے، اس لیے فرمایا گیا کہ تم مجھ ہی سے ڈرو کہ میں ہی اس قابل ہوں اور میرے ہی قبضہء قدرت و اختیار میں ہر شئی کی زمام ہے { ہُوَ أَہْلُ التَّقْوٰی وَاَہْلُ الْمَغْفِرَۃ ِ }، جسکو میں دینا چاہوں اس کو کوئی روک نہیں سکتا، اور جسکو میں محروم کردوں اس کو کوئی دلوا نہیں سکتا، تو پھر تم لوگ خواہ مخواہ کے مخاوف میں مبتلاء ہو کر اوروں سے کیوں ڈرتے اور حق سے کیوں منہ موڑتے ہو ؟ سو تقوی و پرہیزگاری بھی اسی سے ہونی چاہیئے کہ اسکا اہل اور حقدار بھی وہی ہے، اور مغفرت و بخشش کا سوال بھی اسی سے کرنا چاہیئے، کہ اسکا اہل اور حقدار بھی وہی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ فایاہ نسأل التوفیق لذالک والسداد والثبات علیہ ۔ سو جب ہر قسم کا نفع و نقصان اسی وحدہ لا شریک کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے تو پھر کسی اور سے ڈرنے کا معنیٰ و مطلب ہی کیا ؟ اسی لیے یہاں پر حصر کے اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وایای فارہبون } ۔ کہ " تم لوگ خاص مجھ ہی سے ڈرو "۔
Top