Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
، اور ڈرو تم لوگ اس ہولناک دن سے جس میں نہ کوئی شخص کسی شخص کے کچھ کام آسکے گا، نہ اس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی5، نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا، اور نہ ہی ان لوگوں کی (کہیں سے) کوئی مدد کی جائے گی،
141 قیامت کے یوم عظیم کی ہولناکی کا ایک اہم پہلو : مصیبت میں کسی دوسرے کے کام آنے کی بالعموم یہی چار صورتیں ہوسکتی ہیں کہ یا تو کوئی اس کی جگہ اپنی جان پیش کر دے، یا سفارش کرکے اسے چھڑا دے، یا پھر فدیہ اور مال پیش کرکے اس کو رہا کراوے، یا یہ کہ اپنی قوت بازو کی مدد سے اس کی جان بخشی کرا دے۔ پس یہاں پر ان چاروں صورتوں کی نفی فرما دی گئی ہے کہ نفسی نفسی کے اس عالم میں کوئی شخص ان میں سے کسی بھی طریق سے کسی دوسرے کے کچھ کام نہ آسکے گا۔ واضح رہے کہ یہاں جس شفاعت و سفارش کی نفی کی گئی ہے، وہ اس مشرکا نہ شفاعت و سفارش کی نفی ہے، جس کا عقیدہ اہلِِ شرک رکھتے تھے، کہ ہم کچھ بھی کریں فلاں فلاں ہستیاں ہمارا کام بنادیں گی، اور وہ روٹھ کر اور لڑ کر اور اڑ کر ہمیں چھڑوا دیں گی، کہ وہ بڑی پہنچی ہوئی " سرکاریں " ہیں۔ ان کی بات رد نہیں کی جاتی۔ " ہماری ان کے آگے اور ان کی ان کے آگے " وغیرہ۔ جس طرح کہ آج بہت سے کلمہ گو مشرک بھی اسی طرح کے خود ساختہ عقیدوں اور مصنوعی سہاروں کی بنا پر نہ عمل کی فکر کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت سمجھتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے فلاں ہستی کا دامن پکڑ رکھا ہے، جو بڑی " پہنچی ہوئی سرکار "، ہیں، وہ ہمارا سب کام خود کرا دیں گی۔ " ہماری ان کے آگے اور ان کی ان کے آگے "۔ وہ ہماری سنتا نہیں اور ان کی رد نہیں کرتا۔ پس ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے نذرانوں وغیرہ کے ذریعے اپنی انہی " سرکاروں “ کو خوش رکھیں۔ آگے ہمارا سب کام یہ خود ہی کرا دیں گی وغیرہ۔ اس لئے ایسے لوگ نمازوں کی پابندی، عقائد کی اصلاح، قرآن پاک کی تعلیم، فریضہ زکوٰۃ کی باقاعدہ ادائیگی وغیرہ وغیرہ احکام کی کوئی پروا نہیں کرتے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس اس آیت کریمہ اور اس طرح کی دوسری نصوص طیبہ سے دراصل اسی طرح کے مشرکانہ عقیدہ شفاعت و سفارش کی نفی مقصود ہے۔ رہ گئی وہ شفاعت جو شریعت مقدسہ کے ارشادات عالیہ اور تقاضائے عقل و نقل کے مطابق ہوگی، اس کی نفی نہیں۔ اس کا ثبوت تو نصوص قرآن و سنت سے صراحتہً ملتا ہے۔ اور اس کے لئے بنیادی طور پر دو شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ سفارش کرنے والا اس کا اہل ہو، اور اس کو اس کی اجازت ملی ہو۔ اور دوسرے یہ کہ جس کے لئے سفارش کی جائے وہ اس قابل ہو کہ اس کی سفارش کی جاسکے۔ یعنی اس کا جرم قابل معافی ہو، اور یہ دونوں باتیں اللہ پاک ہی کے علم اور اسی وحدہ لاشریک کی مرضی پر، اور اسی کے اختیار میں ہیں۔ پس شفاعت و سفارش کا معاملہ اسی کے اذن پر موقوف ہے جیسا کہ دوسرے مقامات پر اس کی تصریح موجود ہے مثلاً سورة طہٰ میں ارشاد ہوتا ہے۔ { یَوْمَئِذٍ لاَّ تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ إِلاَّ مَنْ اَذِنَ لَہٗ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہ قَوْلاً } ۔ (طٓہَ : 109) ۔ اور سورة سباء میں ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ { وَ لاَتنْفَعُ الشِّفَاعَۃُ عِنْدَہٗ الاَّ لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ } ۔ (سبا : 23) اور سورة نباء میں ارشاد ہوتا ہے ۔ { لاَ یَتَکَلَّمُوْنَ الاَّ مَنْ اَذِنَ لَہٗ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا } ۔ (النبأ: 38) ۔ پس ان نصوص کریمہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس شر کی اور بدعی شفاعت و سفارش کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں، جو اہل ہوٰی نے اپنے تئیں گھڑ رکھی ہے۔ کہ فلاں فلاں ہستیاں اڑ کے بیٹھ جائینگی، اور منوا کے چھوڑیں گی، کہ ان کی بات رد نہیں کی جاسکتی وغیرہ وغیرہ۔ سو ایسی سب باتیں اس طرح کے لوگوں کی خودساختہ ہیں، جن کی نہ کوئی اصل ہے نہ اساس، نہ سند نہ ثبوت، محض ایسے لوگوں کے اپنے مفروضے ہیں اور بس ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم من کل زیغ و ضلال وسوء وانحراف۔ بہرکیف اس روز انسان کو اپنا ایمان وعمل ہی کام آسکے گا۔
Top