Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
، اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے پھاڑا سمندر کو تمہارے لئے راستہ بنانے کو، اور (پھر اسی میں) غرق کردیا ہم نے (فرعون کو اور) فرعون والوں کو، جب کہ تم لوگ خود (اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے7
144 بنی اسرائیل کیلئے سمندر کو پھاڑنے کا انعام : سو یہ بنی اسرائیل کے لئے ایک خاص انعام تھا کہ سمندر کو پھاڑ کر ان کے لیے را ستے بنا دئے گئے تاکہ وہ آرام اور سہولت کے ساتھ اس سے پار ہو سکیں۔ سو ان کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے اپنی قدرت بےپایاں اور رحمت شاملہ سے تمہارے لئے سمندر کو اس طرح پھاڑ دیا، تاکہ اس طرح ایک طرف تو تمہاری نجات اور دشمن کے ظلم و ستم سے تمہاری رہائی کا سامان ہوسکے۔ اور دوسری طرف اسطرح کے معجزانہ انتظام سے تمہاری تعظیم و تکریم بھی۔ اور تیسری طرف تمہارے دشمن اور اپنے وقت کے سب سے بڑے کافر کی اپنے لاؤ لشکر سمیت غرقابی کا بندوبست بھی ۔ فَسُبْحَان اللّٰہ مِنْ قَادِرٍ قَوِیٍٍّ حَکِیْمٍ عَزِیْزٍ ۔ سو اس طرح ہم نے تم لوگوں کو کرم بالائے کرم اور عنایت بالائے عنایت سے نوازا جس کا تقاضا یہ تھا کہ تم لوگ دل و جان سے اپنے رب کے حضور جھک جھک جاتے، اور اس طرح اپنے خالق کا حق ادا کرکے تم لوگ دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرتے، مگر تم نے ناشکری اور حکم عدولی سے کام لے کر اپنے لیے دارین کی ناکامی اور محرومی کا سامان کیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف قدرت نے اپنی رحمت و عنایت سے بنی اسرائیل کو اس خاص انعام سے نوازا کہ چلتے سمندر کو پھاڑ کر اور اس کی موجوں کو روک کر بنی اسرائیل کے لئے خشک راستے بنا دئے جو بلاشبہ ان کے لئے قدرت کا ایک عظیم الشان انعام و احسان تھا مگر انہوں نے پھر بھی ناشکری ہی کی ۔ والعیاذ باللہ ۔ 145 فرعون کی غرقابی بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے : سو اس سے بنی اسرائیل کیلئے ایک اور انعام کا ذکر فرمایا گیا کہ، فرعون کی غرقابی ان کی آنکھوں کے سامنے فرعون کی غرقابی کا ایک اور انعام تھا۔ سو اس طرح ہم نے تمہارے دشمن کو تمہارے سامنے غرق دریا کیا، جس سے تمہارا سرور دوبالا اور تمہیں ملنے والے اس انعام کا درجہ دو چند ہوجاتا ہے کہ جس سمندر کے پھٹنے سے تمہاری نجات کا سامان ہو رہا ہے اور تمہارے لئے خشک راستے نکل آتے ہیں، اسی سمندر سے اور انہی راستوں میں اترنے سے تمہارا دشمن اپنے لاؤ لشکر سمیت تمہارے سامنے، دیکھتے دیکھتے غرق ہو رہا ہے۔ سو ایسے عظیم الشان انعامات کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ تم لوگ دل و جان سے اپنے خالق ومالک کے حضور جھک جاؤ اور اس کے بھیجے ہوئے آخری رسول اور ان پر اتاری گئی آخری کتاب پر صدق دل سے ایمان لے آؤ اور اس میں خود تمہارا اپنا ہی بھلا ہے۔ مگر تم ہو کہ اس سب کے باوجود اور اس کے برعکس کفر و انکار کی راہ پر چل رہے ہو۔ اور اس آخری پیغمبر اور آخری وحی پر ایمان لانے کی بجائے تم لوگ اس میں سدِّراہ بن رہے ہو۔ سو یہی نتیجہ ہوتا ہے عناد و ہٹ دھرمی، اتباع ھویٰ اور خواہشات نفس کی پیروی کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top