Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسَىٰ : اے موسٰی لَنْ : ہرگز نُؤْمِنَ : ہم نہ مانیں گے لَکَ : تجھے حَتَّىٰ : جب تک نَرَى اللہ : اللہ کو ہم دیکھ لیں جَهْرَةً : کھلم کھلا فَاَخَذَتْكُمُ : پھر تمہیں آلیا الصَّاعِقَةُ : بجلی کی کڑک وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے تھے
اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب تم لوگوں نے (اپنے پیغمبر سے) کہا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارے کہنے پر یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو خود اپنی آنکھوں سے کھلم کھلا نہ دیکھ لیں، تو (اس گستاخی پر) تم کو آپکڑا بجلی کے ایک کڑاکے نے تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے، (جس کے نتیجے میں تم سب ڈھیر ہو کر رہ گئے5)
158 بنی اسرائیل کا ایک بیہودہ مطالبہ اور اس کا نتیجہ : یہ اس وقت ہوا کہ جب حضرت موسیٰ ۔ عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ ۔ نے باذن الہٰی ستر آدمیوں کو کوہ طور پر لے جانے کے لئے چنا۔ تاکہ یہ لوگ وہاں جا کر گو سالہ پرستی کی معذرت کریں۔ تو جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو انہوں نے حضرت موسیٰ سے عرض کیا کہ آپ اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ وہ ہمیں اپنا کلام سنا دے، اس پر تھوڑی دیر میں ایک نورانی ابر ظاہر ہوا، تو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اس میں کھو گئے، اور یہ بنی اسرائیلی نیچے کھڑے رہے۔ تب اللہ پاک نے کلام فرمایا جو ان لوگوں نے سنا۔ پھر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اس ابر نورانی سے باہر تشریف لا کر جب ان لوگوں سے دریافت کیا کہ تم نے کلام ِالہیٰ سنا، تو انہوں نے کہا کہ کلام تو ہم نے سنا لیکن اس کے کلام الہیٰ ہونے کا یقین ہم اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ ہم علانیہ اور کھلم کھلا اللہ کو اپنی آنکھوں سے بولتا نہ دیکھ لیں، تو اس بےہودہ جسارت پر ان کو بجلی کے ایک کڑاکے نے اچانک اس طرح پکڑا کہ یہ ادھر ہی ڈھیر ہو کر رہ گئے (معارف للکاندہلوی (رح) وغیرہ) ۔ کیونکہ ان لوگوں کا یہ مطالبہ ایک بیہودہ مطالبہ تھا۔ کیونکہ اس دنیا میں اور ان ناسوتی آنکھوں سے حضرت حق جل مجدہ کو دیکھنا کسی کیلئے ممکن نہیں، کہ ان ظاہری اور مادی آنکھوں سے کسی ظاہری اور مادی چیز ہی کو دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ وہ خالق ومالک وحدہ لاشریک ایسے تمام تصورات سے پاک اور وراء الوراء ہے۔ اور وہ مادہ اور مادیت کے تمام شوائب سے پاک اور اعلیٰ وبالا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 159 بنی اسرائیل کی ایک سنگین گستاخی اور اس کی سنگین سزا : کیونکہ ان لوگوں کا یہ مطالبہ ایک سنگین جسارت اور سخت گستاخی تھی جس کا ارتکاب ان لوگوں نے کیا تھا، اس لئے کہ مخلوق کی ان محدود و مختصر اور قاصر نگاہوں سے حضرت خالق جل و علا کو دیکھنا کسی طرح ممکن نہیں ہوسکتا، ان عاجز اور محدود نگاہوں کے ساتھ دیکھنے کے لئے انسان جتنا بھی زور لگائے، اور جس قدر بھی کوشش کرے، وہ کسی مخلوق ہی کو دیکھ سکتا ہے، اور بس، جبکہ حضرت خالق جل و علا کا معاملہ تو مخلوق کے دائرہ، اور اس کے احاطہ و ادراک سے وراء الوراء ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ ہاں جنت کی اس کامل زندگی میں انسان اس شرف عظیم سے مشرف ہو سکے گا، اور یہ ایسا بڑا شرف اور اتنا بڑا انعام ہوگا کہ اس کے سامنے جنت کی تمام نعمتیں ماند پڑجائیں گی، مگر وہاں پر یہ اس لئے ممکن ہوگا کہ حضرت حق جل مجدہ اپنی قدرت کاملہ اور رحمت بےنہایت سے اہل جنت کو ایک نئی زندگی اور نئی اٹھان دیگا { وَاَنَّ عَلَیْہ النَّشَأَۃَ الاُخْرٰی } جس سے یہ ضعیف البنیان انسان ایک اور ہی انسان کے روپ میں اٹھے گا ۔ اَللّٰہُمَّ شَرِّفْنَا بِہَا بِمَحْض مَنِّکَ وَکَرَمِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ -
Top