Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور (مزید کرم یہ کہ) ہم نے تم پر (میدان تیہ میں) بادلوں کا سایہ کیا، اور تم پر من وسلویٰ اتارا (اور تم سے کہا کہ) کھاؤ (پیو) تم لوگ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں بخشی ہیں، اور انہوں نے (حکم عدولی کرکے) ہمارا کچھ بگاڑا بلکہ وہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کر رہے تھے7
162 بنی اسرائیل کیلئے عظیم الشان سائے کا انتظام : سو بنی اسرائیل کے لیے اس تپتے صحرا میں بادلوں کے ایک عظیم الشان سائبان کی نعمت کا اہتمام و انتظام کیا گیا جب مصر سے نکلنے کے بعد جزیرہ نمائے سینا میں تمہارے لئے سر چھپانے کی بھی کوئی جگہ میسر نہ تھی، تو ہم نے ٹھنڈے اور سفید بادلوں سے ۔ کما قال ابن عباس ۔ تمہارے لئے عمدہ سائے کا عظیم الشان انتظام کیا، ورنہ اس گرم اور تپتے ہوئے صحرا میں اتنے لاکھ لوگوں کیلئے اس طرح سائے کا انتظام کرنا کسی کے بس میں نہ تھا، اور اگر اس سائے کا انتظام نہ کیا جاتا تو کھلے آسمان تلے اس صحرا کی آگ برساتی دھوپ میں تم لوگ جل کر مرجاتے، سو سوچو کہ یہ تم پر تمہارے رب کا کس قدر بڑا اور عظیم الشان انعام و احسان تھا جو کہ ایک طرف تم لوگوں پر اس منعم و وہاب کا ایک عظیم الشان احسان تھا اور دوسری طرف اس کی قدرت و عنایت کا ایک عظیم الشان مظہر بھی۔ ورنہ لاکھوں لوگوں کے اس جم غفیر کیلئے اس طرح فوری طور پر سائے کا انتظام کردینا تو دور حاضر کی کسی بڑی سے بڑی متمدن اور ترقی یافتہ حکومت کے بس میں بھی نہ تھا، چہ جائیکہ ہزاروں سال پہلے کے اس دور میں اور پھر بادلوں کی طرح کا بلند اور ٹھنڈا سایہ بان مہیا کرنا تو ہزاروں سال بعد آج کے اس ترقی یافتہ اور متمدن دور میں بھی دنیا کی کسی بڑی سے بڑی حکومت کیلئے ممکن نہیں، مگر تمہارے رب نے اپنی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ سے تمہارے لیے اس عظیم الشان اور بےمثال سائے کا انتظام فوری طور فرما دیا ۔ فالحمد للہ رب العالمین ۔ 163 بنی اسرائیل کیلئے ایک عظیم الشان کھانے کا اہتمام و انتظام : سو بنی اسرائیل کے لئے اس لق و دق صحرا میں " من وسلویٰ " کی ایک عظیم الشان خوراک کا اہتمام و انتظام کیا گیا۔ اور یہ عظیم الشان قدرتی غذائیں تم کو مہاجرت کے اس زمانے میں برسہا برس تک برابر ملتی رہیں جو کہ ایک اور عظیم الشان خداوندی انعام تھا جس سے تم لوگوں کو نوازا گیا تھا۔ حالانکہ تم کئی لاکھ کی تعداد میں تھے۔ اور اتنی بڑی تعداد میں مہاجروں کا اتنے بڑے عرصے کیلئے، اور اتنے وسیع پیمانے پر، اس قدر ریگستان اور صحرائی علاقے میں انتظام کرنا آج کی متمدن حکومتوں کیلئے بھی نہایت مشکل امر ہے، چہ جائیکہ اس وقت کے ان حالات میں جو کہ آج سے کہیں مختلف، اور کئی ہزار برس پہلے کے تھے۔ واضح رہے کہ " من " کے، بارے میں حضرات علماء و مفسرین کرام کا کہنا ہے کہ یہ دھنیے کے بیج سے ملتی جلتی کوئی چیز تھی، جو ان لوگوں کیلئے قدرتی طور پر اوس کی طرح گرتی اور زمین پر جم جاتی تھی، جسے یہ لوگ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق سمیٹ سمیٹ کر استعمال کرتے تھے، اور " سلوی " بٹیر کی قسم کے ایسے خاص پرندے تھے جو فضل وقدرت خداوندی سے ان لوگوں کیلئے اس کثرت وبہتات سے جمع ہوجاتے کہ وہ اتنی بڑی تعداد کے لوگوں کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے کافی ہوجاتے جو واقعی قدرت کا ایک معجزانہ کرشمہ تھا جس سے اس نے اس ناہنجار قوم کو نوازا تھا (روح، قرطبی، اور مدارک وغیرہ) مگر اس سب کے باوجود اس بےانصاف اور ناشکری قوم نے کفران نعمت ہی سے کام لیا، والعیاذ باللہ العظیم۔ 164 اللہ کی نعمتوں سے استفادے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کھاؤ پیو تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے : سو ان لوگوں کو اللہ پاک کی بخشی ہوئی پاکیزہ چیزوں سے استفادہ کا حکم و ارشاد فرمایا گیا۔ پس تم ان میں سے کھاؤ پیو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو، جمع کرنے اور جوڑ جوڑ کر رکھنے کی کوشش نہ کرنا، اللہ تعالیٰ اپنے خزانہء غیب اور قدرت کاملہ سے اور دیتا جائیگا، مگر ان ناہنجاروں نے اس کے باوجود ذخیرہ اندوزی کی اپنی جبلی خصلت کی بناء پر اس رزق کو جوڑنا اور ذخیرہ کرنا شروع کردیا جس سے وہ گلنے اور سڑنے لگا اور آخر کار یہ لوگ اس پاکیزہ رزق سے محروم کردیئے گئے۔ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ ۔ تورات وغیرہ کی روایت کے مطابق ان لوگوں کو یہ قدرتی خوراک چالیس برس تک ملتی رہی، (ابن کثیر، محاسن التاویل، اور تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ سو اس طرح حکم عدولی اور نافرمانی سے انہوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ 165 اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد سے منہ موڑنا خود اپنی جان پر ظلم کرنا ہے : سو اپنے خالق ومالک کے حکم وارشاد سے منہ موڑنا اور اس کی خلاف ورزی خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ کہ اس طرح انہوں نے معصیت و نافرمانی کا بار الگ اٹھایا اور اس پاکیزہ رزق سے محرومی الگ ہوئی جس میں نہ کوئی غل و غش تھا نہ محنت و مشقت۔ اور نہ آخرت میں کوئی سوال اور باز پرس۔ پس معصیت و گناہگاری میں خود انسان کا اپنا ہی خسارہ و نقصان ہے، نہ کہ حضرت حق ۔ جَلَّ جَلَالُہٗ ۔ کا، وہ اس سے پاک اور وراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اپنے کسی عمل سے اس کو کوئی فائدہ یا کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچا سکے، جیسا کہ حدیث قدسی میں اس کی تصریح موجود ہے ۔ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی -، ۔ وَالْعَیَاذُ بِہٖ جَلَّ وَعَلاَ ۔ سو بندہ جو بھی کچھ کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے کرتا ہے، نیکی کا صلہ وثمرہ اسی کو ملے گا اور برائی کا وبال بھی اسی پر پڑے گا ۔ والعیاذ باللہ جل و علا ۔ ورنہ وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا کہ اللہ تعالیٰ ایسے تمام تصورات سے پاک اور اعلی وبالا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس بندے کا کام ہمیشہ اپنے خالق ومالک کے حضور جھکے رہنا ہے ۔ وباللہ التوفیق -
Top